شامی فوج کی حلب میں باغیوں کے داخلے کی تصدیق، درجنوں فوجی ہلاک
شام کے شمال مشرق میں واقع شہر حلب کے بڑے علاقوں میں باغیوں کی جانب سے حملے کے نتیجے میں درجنوں فوجی ہلاک ہوگئے، یہ حملہ کئی سالوں میں صدر بشار الاسد کے سب سے بڑا چیلنج ثابت ہوا ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق شدت پسند تنظیم ’حیات تحریر الشام‘ کی جانب سے اچانک حملے نے 2020 کے بعد ملک کے اس حصے میں دوبارہ لڑائی کو ہوا دی ہے۔
شامی فوج نے باغیوں کی جانب سے پیش قدمی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاستی رٹ کو بحال کرنے کے لیے جوابی کارروائی کی تیاری کی جارہی ہے، آٹھ سال قبل روس اور ایران کی حمایت یافتہ سرکاری فورسز کے ہاتھوں باغیوں کے انخلا کے بعد مکمل طور پر حکومتی کنٹرول میں رہنے والے شہر حلب کے بڑے حصوں میں شدت پسند داخل ہوچکے ہیں۔
حلب شہر کی تصاویر میں باغی فورسز کے ایک گروپ کو شہر کے سعداللہ ال جبیری اسکوائر میں رات کے پہر داخل ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
دریں اثنا ایک باغی جنگجو کو ٹی وی فوٹیج میں یہ کہتے ہوئےدکھایا گیا کہ’ میں حلب کا بیٹا ہوں اور آٹھ سال قبل میں یہاں سے بے گھر ہوا تھا، خدا کا شکر ہے کہ ہم واپس آ گئے ہیں، یہ ایک ایسا احساس ہے جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔’
ادھر شامی فوج کا کہنا ہے کہ باغیوں نے بڑی تعداد میں مخلتف سمتوں سے حملہ کیا ہے جس کے بعد فوج نے شہریوں اور فوجیوں کی حفاظت اور جوابی کارروائی کی تیاری کے لیے حفاظتی اقدامات کے تحت اپنی حکمت عملی کو تبدیل کیا ہے۔
باغیوں کے دو ذرائع نے بتایا ہے کہ شدت پسندوں کے ادلب صوبے کے شہر معرت النعمان پر بھی قبضے کے بعد پورا صوبہ ان کے کنٹرول میں آگیا ہے، یہ پیش رفت بشار الاسد کے لیے ایک اور نمایاں دھچکہ ثابت ہوسکتی ہے۔
یہ حملہ شمال مغربی شام کے باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں سے کیا گیا ہے جو ابھی تک بشار الاسد کے کنٹرول سے باہر ہیں۔
شامی فوج کے دو ذرائع نے کہا ہے کہ روسی اور شامی جنگی جہازوں نے آج حلب شہر کے مضافات میں باغیوں کو نشانہ بنایا ہے۔
دوسری جانب کریملن کے ترجمان ڈمٹری پیشکوو نے حملے کو شام کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم شامی حکام کی جانب سے علاقے میں صورتحال کو کنٹرول میں لانے اور ریاستی رٹ کی بحالی کے حق میں ہیں۔‘
ترکی کی حمایت یافتہ گروپوں سمیت باغیوں نے کہا ہے کہ ان کے جنگجو حلب کے مختلف علاقوں میں تیزی سے پیش قدمی کر رہے ہیں۔
جیش العزہ باغی بریگیڈ کے کمانڈر مصطفیٰ عبدالجابرح نے کہا کہ ان کی تیز پیش قدمی کی وجہ حلب کے وسیع علاقے میں حکومت کی حمایت کے لیے ایران کے حمایت یافتہ جنگجوؤں کی کمی ہے۔
خیال رہے کہ شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے دوران 2011 میں خانہ جنگی شروع ہوئی تھی، اقوام متحدہ کے دیئے گئے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 10 سال کے دوران 3 لاکھ سے زائد افراد اس جنگ کا نشانہ بن چکے ہیں جبکہ لاکھوں کی تعداد میں شامی اپنے گھر بار چھوڑ کر اطراف کے ممالک میں پناہ گزین کیمپوں میں رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔