اسلام آباد: سینئر صحافی مطیع اللہ جان دہشت گردی کے مقدمے میں گرفتار، 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
اسلام آباد پولیس نے سینئر صحافی مطیع اللہ جان کی دہشت گردی کے مقدمے میں گرفتاری ظاہر کردی، انسداد دہشت گردی عدالت اسلام آباد نے مطیع اللہ جان کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی)، کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ (سی پی جے)، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ ( پی ایف یوجے)، ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز (ایمنڈ) اور سینئر صحافیوں نے مطیع اللہ جان کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کردیا۔
اس سے قبل مطیع اللہ جان کے بیٹے نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے والد کو گزشتہ رات نامعلوم افراد نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) سے اغوا کرلیا ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد کے مارگہ تھانے میں درج کی گئی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف ائی آر) کے مطابق اسلام آباد میں مرگلہ روڈ پر پولیس نے ناکہ بندی کررکھی تھی کہ رات سوا 2 بجے ایف 10 کی جانب سے آنے والی انتہائی تیز رفتاری ایک گاڑی آئی جسے رکنے کا اشارہ کیا گیا، تاہم ڈرائیور نے پولیس اہلکاروں کو مارنے کی غرض سے ان پر گاڑی چڑھا دی۔
ایف آئی آر کے مطابق گاڑی میں سوار شخص نے باہر نکل کر پولیس کانسٹیبل مدثر کو زد و کوب کیا اور اس سے سرکاری ایس ایم جی رائفل چھین کر اہلکاروں پر تان لی اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں۔
ایف آئی آر کے مطابق موقع پر موجود اہلکاروں نے کار سوار کو قابو کرلیا جس کی شناخت مطیع اللہ جان ولد عبدالرزاق عباسی کے نام سے ہوئی۔
ایف آئی آر کے مطابق گرفتاری کے وقت مطیع اللہ جان نشے کی حالت میں پایا گیا، اس دوران گاڑی کی تلاشی لی گئی تو ڈرائیونگ سیٹ کے نیچے سے ملنے والے سفید شاپر سے 246 گرام آئس برآمد ہوئی۔
ایف آئی آر کے مطابق سینئر صحافی مطیع اللہ جان کو ناکے پر گاڑی نہ روکنے، پولیس اہلکاروں کو جان سے مارنے کی نیت سے گاڑی بیریئر پر مارنے، سرکاری ملازمین کو کارسرکار سے روکنے، آئس رکھنے اور راہ گیروں کو خوف و ہراس سے مبتلا کرنے کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعہ 7 سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا ہے، مطیع اللہ جان کو آج مقامی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
دریں اثنا، سینئر صحافیوں نے مطیع اللہ جان پر درج ایف آئی آر کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
سینئر صحافی عمر چیمہ نے اپنی ایکس پوسٹ میں لکھا کہ ’مطیع اللہ جان جو سگریٹ بھی نہیں پیتا اس پر نشے کا الزام لگا دیا ہے، آفرین ہے ان پر، یہ ایف آئی آر پڑھ کر مجھے اشتیاق پیدا ہوا ہے کہ اس ارسطو سے ملوں جن پر ایسے خیالات کی آمد ہوتی ہے اور پھر ان پر عملدرآمد ہوتا ہے، ان عقل کے اندھوں کو کسی دشمن کی بھی ضرورت نہیں‘۔
سینئر صحافی اعزاز سید نے ایف آئی آر کو بے بنیاد اور مشکوک قرار دے دیا۔
دریں اثنا، اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے صحافی مطیع اللہ جان کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا، عدالت نے اہلخانہ کو مطیع اللہ جان سے ملاقات کی اجازت دے دی۔
اس سے قبل پولیس نے مطیع اللہ جان کو انسداد دہشتگردی عدالت کے جج طاہر عباس سپرا کے روبرو پیش کرکے 30 دن کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی، عدالت نے وکلا کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
دوران سماعت ملزم کے وکیل ہادی علی چٹھہ نے مقدمے کا متن پڑھ کر عدالت کو سنایا، ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے 257 گرام آئیس برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا، مطیع اللہ جان سینئر صحافی ہیں اور حق سچ پر رپورٹنگ کر رہے ہیں، ان کے ہمراہ سینئر صحافی ثاقب بشیر بھی تھے جنہیں پمز ہسپتال سے گرفتار کیا گیا، ڈی چوک پر احتجاج کی رپورٹنگ کرنے پر انہیں گرفتار کیا گیا، ہم کب تک تماشہ برداشت کریں گے، ہماری قانونی بات نہیں سنی جاتی۔
ملزم کے وکیل نے عدالت سے مقدمہ ڈسچارج کرنے اور ریمانڈ مسترد کرنے کی استدعا کی۔
سماعت کے دوران صحافی ثاقب بشیر کی جانب سے بیان حلفی عدالت میں پیش کیا گیا، جج طاہر عباس سپرا نے ریمارکس دیئے کہ گولیاں چلنے اور دیگر معاملات پر اس کیس میں تبصرے نہ کیے جائیں۔
اس دوران وکیل ایمان مزاری نے سوال کیا کہ ریمانڈ کا مقصد کیا ہے اور کس وجہ سے ریمانڈ مانگا جا رہا ہے؟
سماعت کے دوران وکیل فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ مطیع اللہ جان کو ہم نے کبھی سگریٹ پیتے نہیں دیکھا، انہیں سچ بولنے کی سزا دی جا رہی ہے اور اس سے پہلے بھی ان کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے، پوری دنیا نے دیکھا ثاقب بشیر ان کے ہمراہ تھے یہ ساری کہانی بنائی گئی ہے، برآمد کیا کرنا ہے اور ریمانڈ کیوں مانگا جا رہا ہے، سب کچھ تو پولیس برآمد کر چکی ہے۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج طاہر عباس سپرا نے استفسار کیا کہ مطیع اللہ جان کے صحافی ہونے کی وجہ سے اور بیان حلفی دینے پر آپ ملزم کی بریت چاہتے ہیں؟ انہوں نے ریمارکس دیئے کہ جو صحافی نڈر ہو حکومت کو تنقید کا نشانہ بنائے تو وہ کوئی جرم نہیں کر سکتا، میں نے اپنی پرسنل نالج پر ریمانڈ دینا ہے؟
وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ پولیس کے پاس کون سا جواز ہے کہ 30 دن کا ریمانڈ دیا جائے۔
اس موقع پر پراسیکیوٹر راجہ نوید نے عدالت کو بتایا کہ مطیع اللہ جان سے منشیات برآمد ہوئی اور ان کا میڈیکل بھی کرایا گیا ہے، یہ منشیات کی خریدو فروخت بھی کرتے ہیں، ہم نے وہ شواہد اکٹھے کرنے ہیں کہ منشیات کہاں سے لی گئی۔
اس کے بعد صحافی ثاقب بشیر روسٹرم پر آگئے جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ حیرت کی بات ہے مطیع اللہ جان آئیس لیتے ہیں اور چرسی بھی ہیں۔
جج طاہرعباس سِپرا نے ریمارکس دیئے کہ مطیع اللہ جان کو چرسی تو نہیں کہا جس پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے، انہوں نے کہا کہ قلم کے ساتھ اسکرین آگئی ہیں تو معاملہ خراب ہوگیا ہے۔
صحافی ثاقب بشیر نے دوران سماعت عدالت کو بتایا کہ رات گئے پوچھا گیا سگریٹ کون پیتا ہے، میں نے اور مطیع اللہ جان نے کہا سگریٹ نہیں پیتے اور پھر ہمارے اوپر کیس آئیس کا بنا دیا گیا، مزید کہا کہ انسداددِہشت گردی عدالت دہشت گردوں کے لیے ہے، صحافیوں کے لیے نہیں۔
ملزم کے وکیل ہادی علی چٹھا نے کہا کہ مطیع اللہ جان کا اگر جسمانی ریمانڈ منظور کیا تو میں وکالت چھوڑ دوں گا جس پرجج طاہرعباس سِپرا نے کہا کہ پیچھے سے آواز آرہی ہے کہ ریمانڈ دے دیں۔
اس موقع پر صحافی اعزاز سید نے کہا کہ لگتا ہے جج صاحب پیچھے سے آپ کو کسی اور کی آواز آرہی ہے۔
اس سے قبل صحافی مطیع اللہ جان کے ’ایکس‘ اکاؤنٹ پر صبح 5 بجکر 9 منٹ پر کی گئی پوسٹ میں ان کے بیٹے نے بتایا تھا کہ ’مطیع اللہ جان کو آج رات 11 بجے پمز کی پارکنگ سے نامعلوم اغوا کاروں نے ثاقب بشیر (جنہیں 5 منٹ بعد چھوڑ دیا گیا) کے ساتھ ایک نامعلوم گاڑی میں اغوا کر لیا‘۔
پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’یہ واقعہ اسلام آباد میں ہونے والے مظاہروں کی ان کی جرات مندانہ کوریج کے بعد پیش آیا ہے‘۔
مطیع اللہ جان کے صاحبزادے نے مزید لکھا کہ ’میں مطالبہ کرتا ہوں کہ میرے والد کو فوری طور پر چھوڑ دیا جائے اور ان کے اہل خانہ کو فوری طور پر ان کے ٹھکانے کے بارے میں مطلع کیا جائے‘۔
اس سے قبل مطیع اللہ جان کے ’ایکس‘ اکاؤنٹ پر ان کے بیٹے عبدالرزاق نے اپنی ایک ویڈیو بھی شیئر کی ہے جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ ’میرے والد مطیع اللہ کو کل رات ساڑھے 11 بجے پمز ہسپتال کے سامنے سے ثاقب بشیر انکل کے ساتھ اٹھایا، نامعلوم گاڑیوں میں سوار نامعلوم افراد نے اپنا کوئی تعارف نہیں کرایا کہ پولیس سے ہیں یا رینجرز سے ہیں یا کوئی اور ہیں، کیونکہ یہ جمہوریہ پاکستان ہے، یہاں عوام یا عوام کے نمائندوں کو کیا بتانے کی ضرورت ہے کہ کون کہاں پر ہے؟‘
انہوں نے کہا کہ ’اٹھانے والوں نے 5 منٹ بعد کہیں روکا، ظاہر ہے ان کا کوئی سیف ہاؤس ہوگا، ان کو تو سب پتا ہوتا ہے، ہمیشہ ان کی ہر چیز کی کلیئرنس ہوتی ہے، کہیں پر روکا اور ثاقب بشیر انکل کو کہا کہ آپ کا مسئلہ نہیں ہے، مطیع اللہ جان کا مسئلہ ہے اور انکل بشیر کو چھوڑ دیا گیا‘۔
عبدالرزاق نے مزید کہا کہ ’مطیع اللہ جان صاحب کو یہ مسئلہ ہے کہ اس عمر میں رات کو 2، 3 بجے نکل کر انہیں رپورٹنگ کرنے کا شوق ہے، جو وہ جوانی سے پی ٹی وی کے دور سے کرتے آرہے ہیں، بھارت، پاکستان اور باہر ملکوں کی کوریج، خبر جاکر خود دیکھنی ہے اور جو چیز ہے وہ عوام کو بتانی ہے، ان کا یہ مسئلہ ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’اس مسئلے کی بنیاد پر نامعلوم افراد، نامعلوم گاڑیاں، پاکستان کے اصل وارث انہیں اٹھا کر لے گئے ہیں‘۔
عبدالرزاق نے درد بھرے لہجے میں مزید کہا کہ ’کوئی خدا کا خوف کرو یار! تم لوگوں کے گھر میں بچے، ماں بہن نہیں ہیں؟ کوئی بھی نہیں ہے؟ کس طرح اٹھا لیتے ہو کسی کو یار؟ رات کو کسی کے باپ، کسی کے شوہر کو اٹھاتے ہو، مذاق بنالیا ہے اپنا اور بس یہی مشن چھوٹے چھوٹے کرنے ہیں، کوئی دماغ ہے تم لوگوں کے اندر؟ تم جیسے لوگ ہر ملک میں ہوتے ہیں لیکن اپنوں کو نہیں اٹھاتے‘۔
سینئر صحافی حامد میر نے بھی ’ایکس‘ پر مطیع اللہ جان کے بیٹے کی ایک ویڈیو شیئر کی تھی، حامد میر نے اپنی ’ایکس‘ پوسٹ میں لکھا تھا کہ سینئر صحافی مطیع اللہ جان کو ایک اور صحافی ثاقب بشیر کے ساتھ نامعلوم افراد نے 26 نومبر کی رات اغوا کیا، بعد ازاں ثاقب بشیر کو چھوڑ دیا گیا تاہم مطیع اللہ جان تاحال لاپتا ہیں، حامد میر نے بتایا کہ ثاقب بشیر آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کریں گے۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی وحید مراد نے بھی اپنی ’ایکس‘ پوسٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ ’معروف صحافی مطیع اللہ جان کو اسلام آباد کے پمز ہسپتال کی پارکنگ سے رات 11 بجے نامعلوم افراد نے اغوا کر لیا ہے، اُن کے ہمراہ صحافی ثاقب بشیر بھی تھے جن کو بعد ازاں آئی 9 سیکٹر میں اغواکاروں نے چھوڑ دیا‘۔
انہوں نے لکھا کہ ’ثاقب بشیر کے مطابق دونوں کو منہ پر کپڑا ڈال کے ڈالہ نما گاڑی میں لے جایا گیا تھا‘۔
انسانی حقوق اور صحافتی تنظیموں کا مطیع اللہ جان کی فوری رہائی کا مطالبہ
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) اورصحافتی تنظیموں نے صحافی مطیع اللہ جان کی مبینہ گرفتاری کی مذمت کی ہے۔
ایچ آر سی پی نے مطیع اللہ جان کی فوری رہائی کامطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مطیع اللہ جان کو فوری اور غیرمشروط طور پر رہا کیا جائے، صحافیوں کو خاموش کرنےکا یہ آمرانہ حربہ بند ہونا چاہیے۔
صحافتی حقوق کی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ ( سی پی جے) نے بھی سینئر صحافی مطیع اللہ جان کی مبینہ گرفتاری کی مذمت کردی۔ سی پی جے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صحافی مطیع اللہ جان کی رہائی کامطالبہ کرتےہیں، ان واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ مطیع اللہ جان کو تحریک انصاف کے دور حکومت میں 21 جولائی 2020 کو بیٹے کے اسکول کے باہر سے اغوا کیا گیا تھا، تاہم کچھ گھنٹے بعد ہی انہیں اسلام آباد کے قریب فتح جنگ کے صحرائی علاقے میں چھوڑ دیا گیا تھا۔