کوپ 29: ترقی پذیر ممالک کو 300 ارب ڈالرز دینے سے کیا واقعی کوئی تبدیلی آسکے گی؟
کوپ 29 کے آغاز سے پہلے کچھ حلقوں کی اس سے جو تھوڑی بہت توقعات وابستہ تھیں وہ بھی اتوار کو معلوم ہوا کہ بہت زیادہ تھیں۔
آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں 2035ء تک ترقی پذیر ممالک کو کاربن کے اخراج کو کم کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات سے نمٹنے کے لیے 300 ارب ڈالرز جمع کرکے دینے کا حتمی فیصلہ کیا گیا جبکہ بھارت کی نمائندہ چاندنی رینا نے اس عمل پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ بہ ظاہر کارآمد لگ رہا ہے لیکن امداد سے حقیقت میں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
ایک ہفتہ قبل پاکستان کی سابق وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے کہا تھا کہ ’ہم یہاں زندگی اور موت کی وجوہات کی بنا پر ہیں‘ اور انہوں نے عالمی درجہ حرارت کے اضافے میں تاریخی بڑا حصہ ڈالنے والے ممالک سے ’عالمی معیار کی طے شدہ شراکت داریوں‘ کا مطالبہ کیا۔ ساتھ ہی انہوں نے نجی سیکٹر پر بہت زیادہ انحصار کرنے کے حوالے سے بھی خبردار کیا تھا۔
فطری طور پر جب کانفرنس کا انعقاد ہوا تب ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت کا منفی اثر کانفرنس کے پورے دورانیے میں محسوس کیا گیا۔ حتیٰ کہ اچھے وقتوں میں بھی امریکا نے موسمیاتی تبدیلیوں سے لڑنے کے لیے ایک اچھے رہنما کا کردار ادا نہیں کیا۔ بہت سے امریکی قانون ساز فوسل فیول کمپنیوں اور لابیسٹ کی جانب سے عطیات ملتی ہیں جن کی وجہ سے وہ گرین نیو ڈیل جیسے خیالات کی مخالفت کرتے ہیں۔ لیکن ٹرمپ اور ان کے کچھ قریبی اتحادی تیل اور گیس کی پیداوار بڑھانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے تمام باتیں محض ایک دھوکا ہیں۔
ٹرمپ اور ان کے اتحادی ارجنٹینا کے صدر ہاویئر میلے سے اتفاق کر سکتے ہیں جو انتہائی دائیں بازو کے سیاست دان کے طور پر جانے جاتے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں اپنا ’پسندیدہ صدر‘ قرار دیا ہے۔ ہاویئر میلے نے صرف تین دن کے بعد ہی اپنے ملک کے وفد کو باکو کانفرنس سے نکل جانے کا حکم دیا کیونکہ ان کا خیال ہے کہ موسمیاتی بحران صرف ’سوشلسٹ کا جھوٹ‘ ہے۔
اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ آذربائیجان کی قیادت بھی اسی طرح کے خیالات رکھتی ہے۔ صدر الہام علیوف نے تیل اور گیس کو ’خدا کا تحفہ‘ قرار دیا لیکن انہوں نے ان دیگر قدرتی وسائل کا ذکر نہیں کیا جو انسان کی جانب سے توانائی کے نام پر فوسل فیولز جلانے کی وجہ سے خطرے میں ہیں۔ کیا قابل تجدید توانائی کے ذرائع جیسے سورج کی روشنی اور ہوا، خدا کا تحفہ نہیں ہیں؟
ایسا نہیں ہے کہ آذربائیجان میں سورج کی روشنی کی کمی ہے لیکن اس کی غیر ملکی آمدنی کا 90 فیصد فوسل فیولز کی برآمدات سے حاصل ہوتا ہے۔ اس میں اسرائیل کو تیل کی تقریباً 40 فیصد برآمدات ہوتی ہے جو اس وقت فلسطینیوں کے خلاف جاری نسل کشی میں اس کی سہولت کاری کرنے کے مترادف ہے۔ اس کے بدلے میں آذربائیجان اسرائیل سے ہتھیار حاصل کرتا ہے جو ناگورنو قرہ باغ کے آرمینیائی باشندوں پر نسل پرست تشدد کے لیے آذربائیجان کے کام آتے ہیں۔
ایسی کانفرنسز کا انعقاد تیل اور گیس پیدا کرنے والے ایسے ممالک میں زیادہ کارآمد ثابت ہوتا جو فوسل فیولز کے استعمال کو ترک کرنے میں واقعی دلچسپی رکھتے ہوں۔ تاہم اس سال کا میزبان پچھلے سال کے پیٹروسٹیٹ میزبان (پیٹرول کی پیداوار پر انحصار کرنے والا ملک) کے مقابلے میں فوسل فیولز کو ترک کرنے اور دیگر راستے تلاش کرنے میں کم دلچسپی رکھتے تھے۔
دبئی میں کوپ 28 کی قیادت ابوظبی نیشنل آئل کمپنی کے سربراہ نے کی تھی جہاں کانفرنس میں تیل اور گیس کے لابیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ پہلی بار کانفرنس نے باضابطہ طور پر فوسل فیولز اور موسمیاتی تبدیلی کے درمیان تعلق کو تسلیم کیا جو کئی دہائیوں سے واضح تھا لیکن اسے تسلیم نہیں کیا جارہا تھا۔ ایسا سعودی عرب کی شدید مخالفت کے باوجود ہوا جہاں ولی عہد کے وژن 2030ء منصوبے میں سعودیہ کی منافع بخش تیل کی صنعت سے نقصان اٹھانے والے ممالک کو معاوضہ ادا کرنے کا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا۔ سعودیہ عرب نے باکو کانفرنس میں بھی یہی طریقہ آزمایا لیکن وہ ناکام رہے۔ لیکن کیا اس سے واقعی فرق پڑتا ہے؟
موسمیاتی فنانس میں سالانہ 100 ارب ڈالر فراہم کرنے کا گزشتہ معاہدہ بھی پورا نہیں ہوپایا جس کی حتمی مدت 2020ء طے کی گئی تھی۔ اس رقم کو تین گنا (یا افراط زر پر غور کرتے وقت اسے دوگنا کرنا) کا نئے ہدف کو بھی ممکنہ طور پر انہی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سال کے اوائل میں دنیا درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری اضافے کی حد کو چھو سکتا ہے، گزشتہ کوپ معاہدوں کے باوجود کاربن کے اخراج میں اب بھی اضافہ ہو رہا ہے اور بہت سے ماہرین نے پیش گوئی کی کہ 2024ء گرم ترین سال ہوگا۔
موسمیاتی سائنسدان اکثر غیر متوقع واقعات سے حیران رہ جاتے ہیں جیسا کہ سابق برطانوی وزیر اعظم ہیرالڈ میک ملن نے کہا تھا ’واقعات میرے پیارے واقعات‘۔ 2035ء تک جب 300 ارب ڈالر جمع کرنے کے ہدف کا حصول طے پایا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ دنیا کہاں کھڑی ہوگی۔ یہاں تک کہ اگر رقم جمع ہو بھی جاتی ہے تو شاید یہ رقم کارآمد نہ رہے کیونکہ اس وقت تک بہت تاخیر ہوسکتی ہے حتیٰ کہ تب تو شاید کھربوں ڈالرز بھی کسی کام نہ آئیں۔
یہ واضح ہے کہ موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کی کوششیں کس حد تک غیرمؤثر ہیں لیکن کوئی اگر یہ دلیل پیش کرسکتا ہے کہ امداد کیوں جمع نہیں کرنی چاہیے تو اسے ایک حقیقت پسندانہ متبادل بھی پیش کرنا ہوگا۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ کوپ 30 کا انعقاد برازیل میں ہوگا جہاں کی موجودہ حکومت موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ شاید بہترین حل یہ ہو گا کہ گریٹا تھیونبرگ جیسے متحرک نوجوان ماحولیاتی کارکنان کو یہ ذمہ داری سونپی جائے کہ وہ راستہ تلاش کریں۔ لیکن میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ محض ایک خواب ہی ہو سکتا ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
لکھاری سے ای میل کے ذریعے رابطہ کریں: mahir.dawn@gmail.com
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔