پاکستان

نشتر ہسپتال میں ایڈز پھیلنے کا اسکینڈل، ریکارڈ میں ردوبدل کرنے والے 35 افراد کی شناخت

ہسپتال کا ملازم نجی ڈائیلاسز سینٹر چلاتا ہے، عملے کی غفلت سے مریضوں میں ایڈز پھیلا، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ڈاکٹرز کو بچانے کے لیے میدان میں کود گئی۔

ملتان پولیس نے نشتر ہسپتال میں زیر علاج ڈائیلاسز کے مریضوں کے ایچ آئی وی/ ایڈز کے مثبت آنے والے ٹیسٹ کے ریکارڈ میں ردو بدل کرنے میں ملوث 35 افراد کی شناخت کرلی ہے، ان میں نشتر ہسپتال کے عملے کے ارکان بھی شامل ہیں۔

ڈان اخبار کی خبر کے مطابق دوسری جانب پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر، ڈاکٹرز اور طبی عملے کی حمایت میں سامنے آئی ہے، وائس چانسلر اور طبی عملے کی غفلت اور لا پروائی کے نتیجے میں گردے کے درجنوں مریضوں میں ایچ آئی وی / ایڈز مثبت پایا گیا تھا، ان الزامات پر وائس چانسلر اور طبی عملے کے ارکان کو معطل کیا گیا تھا۔

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر پولیس نے نشتر ہسپتال کے نیفرولوجی ڈپارٹمنٹ میں زیر علاج مریضوں کی ٹیسٹ رپورٹ میں جعلسازی/ ردو بدل کرنے کے الزام میں تحقیقات مکمل کیں۔

اعلیٰ پولیس افسر نے ڈان کو بتایا کہ تفتیش کے نتائج سے محکمہ صحت کے حکام کو آگاہ کیا جائے گا تاکہ وہ ملوث عملے کے خلاف کارروائی کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مینڈیٹ مریضوں کی ٹیسٹ رپورٹس اور ریکارڈ میں ردوبدل کی حد تک محدود تھا، ہمیں ڈاکٹرز اور طبی عملے سے پوچھ گچھ یا ذمہ داران کا تعین کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

پولیس افسر کے مطابق ’دوران تفتیش انکشاف ہوا کہ نجی لیبارٹریز نے نشتر ہسپتال کے ڈائیلاسز کرانے والے مریضوں کے ریکارڈ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی، حکام کو گمراہ کرنے کے لیے پرانی تاریخوں کی ٹیسٹ رپورٹس تیار کی گئیں، اس معاملے میں نشتر ہسپتال کا ایک ملازم اپنا نجی ڈائیلاسز سینٹر چلانے میں ملوث پایا گیا اور یہ ملازم نشتر ہسپتال کو حکومت کی جانب سے فراہم کی جانے والی ٹیسٹ کٹس اپنی نجی لیبارٹری کے لیے استعمال کرتا تھا۔‘

پولیس کا کہنا ہے کہ ایس ایس پی سطح کے افسر کی نگرانی میں کی جانے والی تفتیش میں معلوم ہوا کہ نشتر ہسپتال کے عملے سمیت 30 سے 35 افراد مریضوں کی جعلی ٹیسٹ رپورٹس تیار کرنے میں ملوث تھے، یہ تمام مریض طبی عملے کی غفلت کے باعث ایچ آئی وی / ایڈز میں مبتلا ہوئے تھے۔

اس حوالے سے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے پیر کو ایک نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں سینئر ڈاکٹرز کو معطل کرنا غیر قانونی، غیر منطقی اور رولز کی خلاف ورزی ہے۔

رپورٹس کے مطابق پی ایم اے نے نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے سینئر فیکلٹی ممبرز اور دیگر ڈاکٹرز کی حمایت ایسے وقت میں کی ہے جب پی ایم اے کے ملتان سے ایک سینئر عہدیدار کو بھی نشتر ہسپتال کے ایچ آئی وی / ایڈز کے مریضوں کے ریکارڈ میں جعلسازی/ ردو بدل کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن لاہور چیپٹر کے صدر پروفیسر اشرف نظامی، ڈاکٹر کامران سعید، پروفیسر شاہد ملک، ڈاکٹر اظہار احمد چوہدری، ڈاکٹر ارم شہزادی اور ڈاکٹر واجد نے گورنر پنجاب سے مطالبہ کیا کہ نشتر میڈیکل یونیورسٹی کی وائس چانسلر مہناز خاکوانی کی جانب سے جمع کرایا گیا استعفیٰ منظور نہ کریں۔

پروفیسر اشرف نظامی نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی انکوائری رپورٹ کو ادھورا اور بے ضابطگیوں سے بھرپور قرار دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹرز اور طبی عملے کو ہراساں کرنے اور ان کی تذلیل کو برداشت نہیں کیا جائے، اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف سے ملاقات کرکے انہیں سارے معاملے سے آگاہ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام کی جانب سے ڈائیلاسز کے مریضوں کے ٹیسٹ کے ٹائم پیریڈ کے حوالے سے اسٹینڈرڈ گائیڈ لائنز جاری کرنا متنازع عمل ہے، پی ایم اے عہدیداروں نے بیوروکریسی اور سیکریٹری صحت پنجاب پر معاملے سے غلط انداز میں نمٹنے کا الزام بھی عائد کیا اور کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کو انکوائری کمیٹی اور اس معاملے کے پس پردہ حقائق سے درست انداز میں آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔