دنیا

چین کی جانب سے مبینہ ہیکنگ، وائٹ ہاؤس حکام کی ٹیلی کمیونیکیشن عہدیداروں سے ملاقات

وائٹ ہاؤس میں اجلاس امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان اور سائبر و جدید ٹیکنالوجی کے لیے ڈپٹی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر این نیوبرگر کی میزبانی میں منعقد ہوا۔

وائٹ ہاؤس کے سینئر حکام نے ٹیلی کمیونیکیشن شعبے کے عہدیداران سے ملاقات میں چین کی جانب سے ’مبینہ سائبر حملوں ’ کے انسداد کے لیے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق امریکی حکام نے رواں ماہ بتایا تھا کہ چین سے منسلک ہیکروں نے بہت ساری ٹیلی کام کمپنیوں کے نظام میں داخل ہوکر امریکی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے تیار کردہ نگرانی کا ڈیٹا حاصل کیا تھا۔

دو روز قبل سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سربراہ مارک وارنر نے امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے اسے ’ملکی تاریخ کا بدترین ٹیلی کام ہیک قرار دیا تھا۔‘

وائٹ ہاؤس میں یہ اجلاس امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان اور سائبر و جدید ٹیکنالوجی کے لیے ڈپٹی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر این نیوبرگر کی میزبانی میں منعقد ہوا۔

وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق ’ملاقات کا مقصد ٹیلی کمیونیکیشنز کے شعبے کے عہدیداروں سے یہ جاننا تھا کہ امریکی حکومت کس طرح نجی شعبے کے ساتھ شراکت داری کر کے ریاستی سطح کے پیچیدہ سائبر حملوں سے تحفظ فراہم کر سکتی ہے،‘ تاہم وائٹ ہاؤس نے اجلاس میں شریک ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں اور عہدیداران کے نام نہیں بتائے۔

دوسری جانب بیجنگ نے امریکی حکومت اور دیگر کی جانب سے ہیکرز کے ذریعے کمپیوٹر سسٹمز تک رسائی حاصل کرنے کے الزامات کو بارہا مسترد کیا ہے۔

واضح رہے کہ رواں سال مارچ مین امریکا، برطانیہ اور نیوزی لینڈ نے بیجنگ میں مقیم سائبر گروپ پر قانون سازوں اور اہم جمہوری اداوں کے خلاف سلسلہ وار سائبر حملوں کا الزام عائد کیا تھا۔

امریکی محکمہ انصاف نے 7 چینی شہریوں پر الزام کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایک 14 سالہ ’عالمی ہیکنگ آپریشن‘ تھا جو چین کے لیے معاشی جاسوسی اور غیر ملکی انٹیلی جنس مقاصد کی مدد کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل لزا موناکو نے بتایا تھا کہ مہم کے دوران 10 ہزار سے زیادہ ای میلز بھیجی گئیں، جس میں امریکی اور غیر ملکی کاروبار، سیاستدانوں، منتخب نمائندوں اور صحافیوں کو ہدف بنایا گیا۔

واشنگٹن نے ان حملوں کو چین کے طاقتور قومی سلامتی کے ادارے کی جانب سے چلایا جانے والا ’سائبر جاسوسی کا پروگرام‘ قرار دیا تھا

امریکی محکمہ انصاف کے مطابق ہیکرز نے ای میل اکاؤنٹ، کلاؤڈ اسٹوریج اکاؤنٹ، ٹیلی فون ریکارڈز تک رسائی حاصل کی تھی۔