کیا لاہور 1952ء کی دی گریٹ لندن اسموگ سے سبق حاصل کرپائے گا؟
مانچسٹر اور نیویارک کی فیکٹریاں صنعتی انقلاب کی فخریہ علامت سمجھی جاتی تھیں جو 18ویں صدی میں ترقی اور خوشحالی کے دور کا آغاز ثابت ہوئیں لیکن اس سنہری دور نے اپنے پیچھے ایک تاریک میراث چھوڑی۔ اس نے ماحولیاتی بحران کے بیج بوئے جن کا ہم آج سامنا کر رہے ہیں۔
تیز ترین صنعتی ترقی اور کاربن کے اخراج کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی رونما ہوئیں، اسموگ اور فضائی آلودگی کی صورت میں ہم نے ترقی کی بھاری قیمت ادا کی اور یہ یاد دہانی ہمارے لیے پریشان کُن ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ پاکستان جوکہ عالمی کاربن کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ڈال رہا ہے، اس ماحولیاتی بحران کا خمیازہ کیوں بھگت رہا ہے بالخصوص لاہور اور پنجاب؟ اس خطے میں اسموگ قومی سلامتی کا مسئلہ بن چکی ہے جس سے عوامی صحت اور پیداواری صلاحیت کو بڑے پیمانے پر خطرات لاحق ہیں۔
لیکن تاریخ میں اسباق موجود ہیں۔ تاریخ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ برطانیہ جیسی قوم نے اسی طرح کے چیلنجز سے کیسے نمٹا اور یہ طریقے پاکستان کی رہنمائی کرسکتے ہیں۔
’ڈیتھ ان دی ایئر‘
لاہور کو آج جس اسموگ نے گھیر رکھا ہے، وہ کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس کی ماضی میں مثال نہ ملتی ہو۔ دسمبر 1952ء میں ’گریٹ لندن اسموگ‘ پر غور کرتے ہیں۔ دھوئیں اور آلودگیوں سے بھری اس زہر آلود اسموگ نے شہر کو پانچ دن تک لپیٹ میں لیے رکھا جس کے نتیجے میں 4 ہزار سے زائد اموات ہوئیں۔ یہاں تک کہ کھیتوں میں مویشیوں کے دم گھٹنے سے اموات کی بھی اطلاعات سامنے آئیں۔ یہ لندن کی تاریخ کا ایک دلخراش باب تھا جو صنعتی آلودگی سے پیدا ہوا اور موسمی حالات کی وجہ سے صورتحال ابتر ہوئی۔
لندن کے لیے اسموگ کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ 19 ویں اور 20 ویں صدی کے اوائل میں صنعتی ترقی کی وجہ سے طویل عرصے سے لندن پر دھند کے بادل چھائے ہوئے تھے لیکن کچھ بھی ہو لندن کے باسی 1952ء کی آفت کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس سانحے نے سب کو چونکا دیا تھا۔
کوئلے کا دھواں فضا میں خارج کرنے والی فیکٹریاں، گرمائش کے لیے کوئلے کو بڑے پیمانے پر جلانے سے فضائی تباہی کے محرکات پیدا ہوتے ہیں۔ برطانیہ کا تجربہ نشان دہی کرتا ہے کہ بے لگام صنعتی ترقی کی بھاری قیمت اٹھانی پڑتی ہے اور اسی طرح کی متوقع تباہی سے بچنے کے لیے پاکستان کو فوری طور پر حل تلاش کرنا ہوں گے۔
لندن میں اسموگ صرف آلودگی کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ مخصوص ماحولیاتی حالات بھی اس کی وجہ بنے کیونکہ عام صورت حال میں تو دھواں فضا میں پھیل کر غائب ہوجاتا ہے۔ تاہم دسمبر 1952ء میں ایک اینٹی سائیکلون نے درجہ حرارت میں چھیڑ چھاڑ کی اور یوں دھواں اور آلودگی زمین کے قریب فضا میں ہی قید ہوگئے۔ صنعتی اخراج اور ٹھہری ہوئی ہوا کا یہ مرکب کا نتیجہ جدید دور کی سب سے مہلک ماحولیاتی آفت کی صورت میں سامنے آیا۔
اسی طرح پنجاب میں موسم کے پیٹرن اور کاشتکاری کے طریقے جیسے بچ جانے والی فصلوں کو جلانا، یہ ہوا کے معیار کو خراب کرتے ہیں اور زمین کے قریب آلودگی کو ہوا میں ہی قید کردیتے ہیں۔ اگر اسے بہتر بنانے کے لیے فوری کارروائی نہ کی گئی تو یہ خطہ اپنی طور پر ہی ماحولیاتی تباہی کا سامنا کرسکتا ہے۔
لندن کی گریٹ اسموگ میں 4 ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہوئے۔ اتی بڑی تعداد میں اموات نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اب ایک مختلف لیکن اتنے ہی مہلک حالات کا اس وقت پنجاب شکار ہے جہاں اسموگ کی وجہ سے سانس لینا دشوار ہے اور یہ لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ پاکستان ایک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے جس کے اثرات لندن کی طرح شدید ہوسکتے ہیں جسے ہم نظرانداز کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
اس صورت حال کا تصور کریں جہاں بچے صاف ہوا کے لیے ترس رہے ہوں، اسکول بند ہیں اور ہزاروں لوگ سانس کی بیماریوں کا شکار ہیں۔ یہ صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں ہے، یہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔
’قوانین غیرمؤثر ہیں‘
دی گریٹ اسموگ کے بعد برطانیہ نے آلودگی پر قابو پانے کے لیے قوانین کا ایک سلسلہ متعارف کرایا جن میں 1956ء اور 1968ء کے کلین ایئر ایکٹ نمایاں ہیں۔ ان قوانین نے شہری علاقوں میں دھوئیں خارج نہ کرنے والے ایندھن کے استعمال کو لازمی قرار دیا اور فیکٹریوں کے لیے ضروری قرار دیا گیا کہ وہ دھوئیں کا اخراج بند کریں۔ اگرچہ قانون سازی کے نتائج ظاہر ہونے میں وقت لگا لیکن ان اقدامات نے بالآخر برطانیہ میں اسموگ کو ماضی کا قصہ بنا دیا۔
آج لندن کے باسی صاف ہوا میں سانس لے رہے ہیں جو گواہی دیتا ہے کہ تعاون کے ساتھ طویل مدتی اقدامات لیے جاسکتے ہیں اور یہ کتنے مؤثر ہوسکتے ہیں۔ صاف فضائی پالیسی کی ایک اور شاندار مثال یہ بھی ہے کہ لندن میں یہ لازمی قرار دیا گیا کہ کوئی بھی مقامی پلاننگ اتھارٹی علاقے میں مناسب ہریالی کو یقینی بنائے بغیر نئی عمارتوں یا رہائشی مکانات کی تعمیر کی منظوری نہیں دے گی۔
پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 9 اے جیسی ترقی پسند قانون سازی جس میں صاف، صحت مند، اور پائیدار ماحول کے حق کو یقینی بنایا گیا ہے اور نیشنل کلین ایئر پالیسی (NCAP) جیسے اقدامات کے باوجود، عمل درآمد کا شدید فقدان ہے۔
اثر و رسوخ رکھنے والے بااثر لوگ ضابطوں کی پامالی کرتے ہیں اور زمین کی منظوری کروا سکتے ہیں جس کے نتیجے میں بغیر جانچ پڑتال کے ترقیاتی کام ہوں گے اور سبزے یا ہریالی ختم ہوتی جائے گی۔
لندن کے برعکس جو اپنے شہریوں کی صحت اور بہبود کو ترجیح دیتا ہے، پاکستان میں غیر منظم انداز میں شہری علاقوں کو وسعت دینے سے شہروں کی فضا میں کنکریٹ اور آلودگی پھیل سکتی ہے جو پائیدار زندگی گزارنے کی کوششوں کو نقصان دہ ہے۔
اسموگ سے راتوں رات نمٹا نہیں جاسکتا۔ اس کے لیے پائیدار اور طویل مدتی کوششوں کی ضرورت ہے۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ جن قوموں نے آلودگی کے مسئلے کا سامنا کیا، وہ مربوط اسٹریٹجک پالیسیز، عوامی تعاون اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں ترقی کرکے اس المیے سے نمٹنے میں کامیاب ہوئیں۔
تاہم پاکستان کے لیے حالات انتہائی نازک ہیں۔ کیا پاکستان اس وقت کا انتظار کرے گا کہ جب تک اس کا اسموگ سے گھرا آسمان عالمی دنیا کے لیے خطرے کی علامت نہیں بن جاتا؟ یا وہ تبدیلی کو روکنے، ہوا کو صاف کرنے، پودوں درختوں کی حفاظت یا مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے کوششیں کرے گا؟ اس سے پہلے کہ پنجاب کی اسموگ 1952ء کے دی گریٹ لندن اسموگ کے سانحے میں تبدیل ہو، اس حوالے سے اقدامات لینے کا وقت آچکا ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
لکھاری آکسفورڈ یونیورسٹی، برطانیہ میں اکیڈمک ہیں جو سیاست، امیگریشن اور ماحولیاتی قانون پڑھاتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔