پاکستان

آئی ایم ایف کی سخت شرائط، پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام رکنے کے قریب پہنچ گیا

رواں مالی سال کے 5 ماہ کیلئے مختص 26 فیصد بجٹ میں سے محض 6.6 فیصد خرچ ہوسکا، پی ایس ڈی پی منصوبوں کا عوام کے معیار زندگی پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی سخت شرائط کے باعث وفاقی حکومت کا پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) رکنے کے قریب پہنچ گیا۔

رواں مالی سال کے بجٹ میں پروگرام کے لیے 5 ماہ کے لیے مختص 26 فیصد بجٹ میں سے بمشکل 6.6 فیصد بجٹ خرچ کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔

ڈان اخبار کی خبر کے مطابق پی ایس ڈی پی منصوبوں پر کیے جانے والے اخراجات کا مفاد عامہ کے منصوبوں اور عوام کے طرز زندگی کے معیار پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال کی زیر صدارت اجلاس میں پی ایس ڈی پی پروجیکٹس برائے مالی سال 25-2024 کی پیشرفت کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس ہوا جس میں حکام کی جانب سے انہیں بریفنگ دی گئی۔

ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے ڈان کو بتایا کہ اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ ’20 نومبر تک پی ایس ڈی پی کے لیے محض 92 ارب روپے ہی خرچ کیے جاسکے ہیں، جبکہ نظر ثانی شدہ بجٹ میں 11 کھرب روپے مختص کیے گئے تھے۔ اس سے قبل یہ بجٹ 14 کھرب ارب روپے تھا جسے آئی ایم ایف سے معاہدے کے تحت گھٹایا گیا تھا۔ 92 ارب روپے کے اخراجات نظرثانی مختص شدہ بجٹ کا محض 8.4 فیصد ہے۔

وفاقی وزارت خزانہ کی جانب سے رواں مالی سال کے لیے جاری میکانزم کے تحت حکومت کو پہلی سہ ماہی تک مختص بجٹ کا 15 فیصد بجٹ جاری کرنا چاہیے۔ دوسری سہ ماہی میں 20 فیصد، تیسری سہ ماہی میں 25 فیصد اور باقی 40 فیصد مالی سال کی آخری سہ ماہی میں جاری کیا جانا چاہیے۔

اس میکانزم کے تحت حکومت کو پی ایس ڈی پی منصوبوں کے لیے 20 نومبر تک تقریباً 26 فیصد بجٹ جاری کرنا چاہیے تھا جو 290 ارب روپے بنتا ہے۔

رواں مالی سال اب تک خرچ کی گئی رقم گزشتہ مالی سال سے بھی کم رہی ہے، گزشتہ مالی سال سخت معاشی حالات کے باوجود اسی مدت کے دوران 117 ارب روپے خرچ کیے گئے تھے جو مجموعی مختص شدہ بجٹ 940 ارب روپے کا 13 فیصد بنتا تھا۔

سرکاری عہدیدار کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال میں کم اخراجات کی بڑی وجہ عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے کی جانے والی ادائیگیاں بھی ہیں جو رواں مالی سال کے 5 ماہ کے دوران محض 2.5 ارب روپے رہی ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پلاننگ کمیشن نے تاحال پی ایس ڈی پی کے لیے 142 ارب روپے منظور کیے ہیں جو کہ مختص شدہ بجٹ 14 کھرب ارب روپے کا محض 10 فیصد ہیں۔

سرکاری بیان میں کہا گیا کہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی کی جانب سے بلائے گئے ’جائزہ اجلاس‘ میں مالی سال 25-2024 میں پی ایس ڈی پی منصوبوں کی پیشرفت پر غور کیا گیا۔ وزارت منصوبہ بندی کے حکام نے اجلاس کو پی ایس ڈی پی کے لیے مختص شدہ بجٹ، جاری اور خرچ کی گئی رقم کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ بھی دی۔

اس حوالے سے جاری کیے گئے سرکاری بیان میں کہا گیا کہ ’وفاقی وزیر نے اجلاس کے دوران وزارت منصوبہ بندی کو ہدایت کی کہ پی ایس ڈی پی کے تحت جاری منصوبوں کی بر وقت تکمیل کو یقینی بنانے کے لیے جامع حکمت عملی ترتیب دی جائے۔‘

اجلاس کو بتایا گیا کہ 406 ارب روپے مالیت کے روڈ انفرا اسٹرکچر منصوبے بلوچستان میں زیر تکمیل ہیں، اس پر احسن اقبال نے ان منصوبوں کو 3 سال کے ٹائم فریم میں مکمل کرنے کے احکام جاری کیے اور کہا کہ بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں کی جلد تکمیل حکومت کی ترجیحات کا اہم جز ہے۔

بلوچستان میں جاری منصوبوں میں 3 اسکیمیں شامل ہیں جن میں نیشنل ہائی وے کے خضدار۔کچلاک سیکشن این 25 کو دو رویہ بنانے، کراچی۔کوئٹہ۔چمن روڈ براستہ کراچی۔کراڑو سے وڈھ۔خضدار کی بحالی اور اسے دو رویہ بنانے اور کراڑو۔وڈھ سیکشن اور کچلاک۔چمن سیکشن کی اسکیمیں ہیں جن پر مجموعی طور پر 224 ارب روپے خرچ کیے جارہے ہیں۔

موٹروے کے 4 دیگر منصوبے (ایم 8) بشمول ہوشاب۔آواران۔ خضدار سیکشن ٹو اور ہوشاب۔آواران۔کیوزر پیکیج ون، گوادر سے رتو ڈیرو اور وانگو ہلز ٹنل تک شاہراہ کی تعمیر کے منصوبے شامل ہیں جن پر 96 ارب روپے خرچ کیے جارہے ہیں۔

اس کے علاوہ بلوچستان کے لیے 2 مزید منصوبے بھی ہیں جن میں 76 ارب کی لاگت سے یارک۔ساگو۔ژوب بائی پاس تک این 50 کی بحالی اور اسے دو رویہ بنانے اور 7 ارب روپے کی لاگت سے آواران سے جھلی جاؤ سڑک کی اپ گریڈیشن کے منصوبے بھی شامل ہیں جو ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال نے وزارت کے افسران کو ہدایات جاری کیں کہ ترقیاتی بجٹ کے لیے دیگر وزارتوں کو جاری فنڈز کا بر وقت استعمال یقینی بنایا جائے۔

انہوں نے مفاد عامہ کے منصوبوں کے لیے وزارت منصوبہ بندی اور دیگر وزارتوں میں روابط کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ غیر ملکی مالی معاونت سے جاری منصوبوں کے لیے اگلی سہ ماہی میں دیگر وزارتوں کو مطلوبہ فنڈز کی بر وقت منظوری یقینی بنائی جائے تاکہ منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر سے بچا جاسکے۔