دنیا

بنگلہ دیش کے سابق پولیس چیف کو انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کا سامنا

پولیس کے سابق سربراہ سمیت 8 ملزمان کو ڈھاکا کی عدالت میں پیش کیا گیا، ملزمان نے ایسے جرائم کا ارتکاب کیا ہے، جو شیطان بھی کرنے کی ہمت نہیں رکھتا، چیف پراسیکیوٹر

بنگلہ دیش کے سابق پولیس چیف کو انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کا سامنا ہے، پولیس نے سابق انسپکٹر جنرل چوہدری عبداللہ المامون سمیت 8 ملزمان کو ڈھاکا کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں ان پر اگست کے انقلاب کو دبانے کی ناکام کوشش میں کریک ڈاؤن کی نگرانی کرنے کا الزام ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق سابق پولیس انسپکٹر جنرل چوہدری عبداللہ المامون کو عدالت میں پیش کیا گیا، اس دوران حاضر سروس افسران بھی موجود تھے۔

عدالت میں استغاثہ نے الزام عائد کیا کہ پولیس کے سابق سربراہ قتل عام، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کی نگرانی کے مرتکب پائے گئے ہیں۔

ڈھاکا کی عدالت میں ریپڈ ایکشن بٹالین پیرا ملٹری فورس کے سابق کمانڈر ضیاالاحسن سمیت 8 مدعا علیہان کو پیش کیا گیا۔

بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے چیف پراسیکیوٹر محمد تاج الاسلام نے بتایا کہ ان 8 ملزمان نے ایسے جرائم کا ارتکاب کیا ہے، جو ’شیطان بھی کرنے کی ہمت نہیں رکھتا‘۔

انہوں نے سماعت کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ ’سابق پولیس چیف طلبہ مظاہرین کے خلاف کیے گئے تمام مظالم کے ذمے دار تھے‘۔

واضح رہے کہ شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد ان کے درجنوں اتحادیوں کو حراست میں لے لیا گیا تھا، جن پر پولیس کریک ڈاؤن میں ملوث ہونے کا الزام ہے، حکومت کے خاتمے کا موجب بننے والے احتجاج کے دوران 700 سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

چیف پراسیکیوٹر محمد تاج الاسلام نے سابق کمانڈر ضیاالاحسن کے خلاف مبینہ ماورائے عدالت قتل، لاشوں کے ٹکڑے کرنے اور حکومتی مخالفین کی نگرانی سمیت دیگر جرائم کی فہرست پیش کی۔

پراسیکیوشن کا کہنا تھا کہ احتجاج کے دوران انٹرنیٹ بند کرنا کے ذمہ دار بھی یہی تھے۔

سابق کمانڈر ضیاالاحسن نے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ میں خفیہ حراستی مرکز کا انچارج نہیں تھا اور کبھی لوگوں کی نگرانی نہیں کی۔

ملزمان نے الزامات سنے تاہم زیادہ تر ملزمان سماعت کے دوران خاموشی سے بیٹھے رہے، جنہیں تاحال درخواست دینے کے لیے نہیں کہا گیا۔

تاہم دوران سماعت ایک ملزم (ڈھاکا کے گلشن پولیس اسٹیشن کے سابق سربراہ مظہر الاسلام) رو پڑے اور ہاتھ اٹھا کر عدالت سے استدعا کی کہ انہوں نے احتجاج کی حمایت کی تھی لہٰذا انہیں بچایا جائے، عدالت نے استغاثہ کو تفتیشی رپورٹ مکمل کرنے کے لیے 19 دسمبر تک کی مہلت دی۔

عدالت نے مبینہ طور پر ’قتل عام، انسانیت کے خلاف جرائم‘ کے الزام میں شیخ حسینہ واجد کے وانٹ گرفتاری بھی جاری کیے، تاہم وہ پہلے ہی بھارت فرار ہوچکی ہیں ۔