پاکستان

190ملین پاؤنڈ ریفرنس: عدالتی حکم کے باوجود عمران خان، بشریٰ بی بی نے جواب داخل نہ کرایا

بانی پی ٹی آئی کو اڈیالہ جیل کے کمرہ عدالت میں پیش کیا گیا، بشری بی بی نے آج بھی طبی بنیاد پر حاضری سے ایک روزہ استثنی کی درخواست دائر کی۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی و سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے اپنے خلاف 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں عدالتی حکم کے باوجود آج بھی 342کے تحت جاری سوالناموں پر جوابات داخل نہیں کروائے۔

احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے اڈیالہ جیل میں سماعت کی، بانی پی ٹی ائی کو کمرہ عدالت میں پیش کیا گیا۔

بشری بی بی آج بھی عدالت پیش نہ ہوئیں اور طبی بنیاد پرحاضری سے ایک روزہ استثنی کی درخواست دائر کردی۔

نیب پراسیکیوشن ٹیم نے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پر اعتراض کیا اور مؤقف اپنایا کہ بشری بی بی کی جانب سے اپنا پلیڈر بھی مقرر نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ حاضری سے استثنی کی درخواست ریفرنس کو تاخیر کا شکار کرنے کے لیے ہے۔

پراسیکیورٹر نے شکوہ کیا کہ ملزمان کی جانب سے 342 کے سوال نامے کے جواب بھی نہیں دیے گئے، ملزمان نے16 گواہوں کی طلبی سے متعلق جو درخواست دی ہے، اس پر بھی بحث نہیں کی جا رہی۔

عدالت نے بشری بی بی کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے ریفرنس پر سماعت 22 نومبر تک ملتوی کر دی۔

یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر احتساب عدالت اسلام آباد نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 342 کے بیانات جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

کیس کا پس منظر

واضح رہے کہ 190 ملین پاؤنڈز یا القادر ٹرسٹ کیس میں الزام لگایا گیا ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو بھیجے گئے 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سیکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی۔

یہ کیس القادر یونیورسٹی کے لیے زمین کے مبینہ طور پر غیر قانونی حصول اور تعمیر سے متعلق ہے جس میں ملک ریاض اور ان کی فیملی کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کے ذریعے 140 ملین پاؤنڈ کی وصولی میں غیر قانونی فائدہ حاصل کیا گیا۔

عمران خان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے طے پانے والے معاہدے سے متعلق حقائق چھپا کر کابینہ کو گمراہ کیا، رقم (140 ملین پاؤنڈ) تصفیہ کے معاہدے کے تحت موصول ہوئی تھی اور اسے قومی خزانے میں جمع کیا جانا تھا لیکن اسے بحریہ ٹاؤن کراچی کے 450 ارب روپے کے واجبات کی وصولی میں ایڈجسٹ کیا گیا۔