نقطہ نظر

’وی پی اینز پابندی: ’حکومت اپنے اقدامات سے ملک کو خانہ جنگی کی جانب دھکیل رہی ہے‘

یہ سچ ہے کہ منفی پروپیگنڈا اور فیک نیوز پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ کیسے ہے؟

صورت حال اس سے زیادہ عجیب نہیں ہوسکتی۔ ہماری حکومت سوشل میڈیا کے خلاف اپنی جنگ کو بالکل نیا رخ دے چکی ہے۔ ایکس پر پابندی لگانے کے بعد حکومت اب ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی اینز) کے استعمال پر پابندی لگانا چاہتی ہے۔

حکومت اس عمل کے لیے اس حد تک جاچکی ہے کہ اس نے اسلامی نظریاتی کونسل سے فتویٰ حاصل کرلیا ہے جس کے تحت وی پی این کے استعمال کو ’غیر شرعی‘ قرار دیا گیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ کا یہ بیان اتفاق سے اسی دن سامنے آیا کہ جس دن آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اسلام آباد کے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ضوابط کے بغیر آزادی اظہار رائے معاشروں میں اخلاقی اقدار میں تنزلی کا باعث بن رہی ہے‘۔ آرمی چیف نے ’جامع قوانین و ضوابط‘ کے نفاذ کا بھی مطالبہ کیا تاکہ اقتدار میں بیٹھے افراد کی جانب سے ’ڈیجیٹل دہشتگردی‘ کہلائے جانے والے واقعات کو روکا جاسکے۔

اگرچہ اسٹیبلشمنٹ کی سینئر شخصیات کا سیاسی معاملات کے حوالے سے بیانات دینا، پاکستان میں عام ہے لیکن آزادی اظہار کے حوالے سے ایسے بیانات تشویش میں مبتلا کرتے ہیں بالخصوص ایک ایسے ملک میں کہ جہاں سوشل میڈیا ہی نہیں بلکہ مین اسٹریم میڈیا بھی مختلف پابندیوں کا شکار ہے۔ انٹرنیٹ سروس سُست کرنے کا حکومتی اقدام اور پھر وی پی این کے استعمال پر پابندی کو آزادی اظہار کو دبانے اور معلومات تک لوگوں کی رسائی محدود کرنے کے مترادف قرار دیا جاسکتا ہے۔

زیادہ تشویش ناک امر یہ ہے کہ یہ تمام پابندیاں قومی سلامتی کے نام پر لگائی جارہی ہیں۔ اس سے ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ آخر سوشل میڈیا بند کرنے اور آزادی اظہار پر قدغن لگا کر ہمارا ملک کیسے محفوظ ہوگا؟ شاید یہ سچ ہے کہ منفی پروپیگنڈا اور فیک نیوز پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ کیسے ہے؟ یہ تو جمہوری عمل اور میڈیا کی آزادی پر پابندیاں ہیں جو ملک کو زیادہ غیرمحفوظ بناتی ہیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں سیکیورٹی فورسز کے خلاف سوشل میڈیا مہمات میں غیرمعمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ لیکن ہماری قیادت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ موجودہ تناؤ جمہوری ماحول کو تنگ کرنے اور غیر سیاسی قوتوں کی سیاست میں مداخلت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔

موجودہ نظام کے حوالے سے عوام میں پائے جانے والے عدم اطمینان کو دور کرنے کے بجائے ہماری ملکی قیادت اختلاف رائے کو دبانے کے لیے مزید سخت اقدامات کررہی ہے۔ مین اسٹریم میڈیا پر پابندیاں لگنے کے بعد لوگوں نے آزادی اظہار کے لیے سوشل میڈیا کا رخ کیا۔ اس کے منفی پہلوؤں کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ عوام اب سوشل میڈیا پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں کیونکہ عوام کی نظر میں مین اسٹریم میڈیا قابلِ اعتبار نہیں رہا۔

سخت ریگولیٹری اقدامات اور آزادی اظہار پر پابندیاں لگانے سے عوام درست معلومات اور اپنے خیالات کے اظہار کے لیے سوشل میڈیا پر زیادہ انحصار کرنے لگتے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ارتقا نے یہ مشکل بنا دیا ہے کہ سوشل میڈیا کو کنٹرول کیا جائے۔ اربوں روپے کی فائروال لگانے کی کوششوں کے باوجود حکومت اپنے مقصد میں ناکام ہے۔ فیک نیوز اور منفی پروپیگنڈے ختم کرنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ جمہوری حقوق بحال کیے جائیں اور آزادی اظہار پر سے پابندیاں اٹھائی جائیں۔

یہ کسی حد تک سچ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مخالف نظریات کو فروغ دینے کے لیے گزشتہ چند سالوں سے سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے۔ لیکن اسے ’ریاست مخالف منفی پروپیگنڈا‘ قرار دے کر غیرسیاسی قوتوں کی بڑھتی ہوئی مداخلت سے متعلق بڑھتے ہوئے عوامی تحفظات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

انتہا پسندوں کے حملوں میں بڑی تعداد میں سیکیورٹی اہلکاروں کے جانی نقصانات کے باوجود دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں عوامی عدم اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ نوجوان نسل اسٹیٹس کو کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کررہے ہیں۔ اگر اسے دبانے کی کوئی بھی کوشش کی گئی تو اس سے عوام اور ریاست کے درمیان خلا مزید گہرا ہوگا۔ یہ تاریخ کا ایسا سبق ہے جو ہماری سول اور ملٹری قیادت کو ابھی سیکھنا ہے۔

یہ کسی ایسے فرد کا کام نہیں کہ وہ معاشرے کے اخلاقی اقدار کا فیصلہ کرے یا آزادی اظہار کو ریگولیٹ کرنے کی بات کرے جس کا تعلق عوامی حلقوں سے نہ ہو۔ اس کے بجائے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھنے والے افراد کو ملک کو درپیش سلامتی کے سنگین چیلنجز پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے جوکہ سیکیورٹی فورسز پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے اہم ہیں۔

سوشل میڈیا کو تمام برائیوں کا ذمہ دار ٹھہرانے سے درپیش واضح خطرات سے نمٹا نہیں جاسکتا۔ صورت حال اس طرح مزید پیچیدہ ہوگئی ہے کہ اسٹریٹجک اہمیت کے حامل دونوں صوبے خیبرپختونخوا اور بلوچستان اس وقت انتہا پسند حملوں کے زد میں ہیں جوکہ قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔

ملک میں سیاسی عدم استحکام میں اضافہ اور دونوں صوبوں کی مقامی انتظامیہ کمزور ہونے سے حالیہ چند ماہ میں دہشت گردی میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ تنازعات میں گھرے ملک کے لیے اس سے بدتر کیا بات ہوسکتی ہے کہ عوام کا اعتماد اس کی قیادت پر سے اٹھ رہا ہے۔

ایسے حالات میں عوامی اور فوجی قیادت کے لیے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ وہ ملک میں سیاسی استحکام کو بحال کریں۔ آج ہماری ریاست کو جس بحران کا سامنا ہے، فائروال لگانے یا ڈیجیٹل سروسز پر پابندی لگانے سے صورت حال مزید خراب ہوگی۔

انٹرنیٹ پر رکاوٹیں لگانے کے صرف سیاسی پہلو نہیں ہیں بلکہ اس کے معاشی نقصانات بھی ہیں۔ معیشت پر اس کے اثرات تباہ کُن ثابت ہوسکتے ہیں۔ آئی ٹی کی فرم کے مطابق انٹرنیٹ پر پابندیوں اور فائروال کے نفاذ سے ’اقتصادی نقصان تقریباً 30 کروڑ ڈالرز تک پہنچ سکتا ہے جبکہ اس میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے‘۔ دیگر آن لائن پلیٹ فارمز پر پابندیاں لگانے سے بحران مزید سنگین ہوسکتا ہے۔

فروری میں انتخابات کے وقت سے ملک میں ایکس پر پابندی ہے جبکہ اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے حکومتی اتحاد پر دباؤ بڑھانے کے لیے اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کی دھمکی کے بعد سے انٹرنیٹ سروسز پر پابندیوں میں مزید اضافہ متوقع ہے۔

دونوں فریق پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں جس سے تنازع مزید سنگین ہوگا۔ آزادی اظہار اور سوشل میڈیا پر مزید رکاوٹیں لگانے سے حالات مزید خراب ہوں گے۔ حکومت اپنے اقدامات سے ملک کو خانہ جنگی کی جانب دھکیل رہی ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔