ٹوئٹر، ٹائی ٹینک اور ٹرمپ
ٹوئٹر (ایکس) اور ٹائی ٹینک کی کہانی میں حیران کن مماثلت ہے۔ دونوں ہی اعتماد اور بھروسے کی علامت تھے، دونوں کو معتبر تصور کیا جاتا تھا اور دونوں اپنے عروج پر پہنچ کر برفیلے تودے سے ٹکرا گئے۔
آپ کو ٹائی ٹینک کی کہانی تو یاد ہوگی؟ یہ پہاڑ نما برطانوی جہاز ایک خاص نوع کے تکبر اور اعتماد کے ساتھ 10 اپریل 1912ء کو سمندر میں اترا تھا۔ اس کی تیاری پر اس زمانے میں 15 لاکھ پاؤنڈز کی لاگت آئی تھی،جو آج کے 18 کروڑ پاؤنڈز کے مساوی ہے۔ ساؤتھ ایمپٹن، انگلینڈ سے روانہ ہونے والے اس پرشکوہ جہاز کی منزل امریکی شہر نیو یارک سٹی تھی مگر اس کا تمام تر طنطنہ پانچ دن بعد ڈھے گیا اور یہ اٹلانٹک کے گہرے سمندر میں غرقاب ہوگیا۔ عملے اور مسافروں سمیت اس جہاز پر لگ بھگ 2 ہزار 224 افراد سواز تھے جن میں سے ڈیڑھ ہزار اپنی زندگی کی بازی ہار گئے۔
گو ٹوئٹر کے غرقاب پر کسی جانی نقصان کا اندیشہ نہیں مگر مالی نقصان کسی طور ٹائی ٹینک سے کم نہیں ہوگا۔ البتہ اس سے زیادہ پریشان کن ہے، سماجی، فکری اور نظریاتی نقصانات جن کا تخمینہ لگانا مشکل ہے۔
ٹوئٹر کہانی: ماضی کے جھرکوں سے
یاد رہے کہ ٹوئٹر کا قیام مارچ 2006ء میں عمل میں آیا تھا۔ پہلا ٹویٹ 21 مارچ 2006ء میں اس کے شریک بانی اور پہلے سی ای او جیک ڈورسی نے کیا۔ جب 2021ء میں ٹوئٹر دنیا کا ایک معتبر سوشل میڈیا پلیٹ فارم بن گیا۔ اس وقت یہی ٹویٹ کسی نایاب پینٹنگ کی مانند نیلامی کے لیے پیش ہوا اور 19 لاکھ ڈالر میں خریدا گیا۔
ٹوئٹر نے جلد ہی صارفین کا اعتماد جیت لیا۔ معروف شخصیات کی یہاں موجودگی اور ان کے ویریفائیڈ اکاؤنٹس نے اسے اعتبار بخشا۔ سیاسی، سماجی اور شوبز شخصیات نے اپنے خیالات کو ٹویٹ کی شکل دینے کا سلسلہ شروع کیا جو خبروں کی زینت بننے لگے۔ مین اسٹریم میڈیا میں ٹوئٹر نے ایک ایسی سائٹ کی حیثیت اختیار کر لی جو فیس بک، یوٹیوب اور انسٹا گرام کے مقابلے میں زیادہ معتبر ٹھہری۔
معروف شخصیات کے فالوورز کی بڑھتی تعداد بھی میڈیا میں خبر بنے لگی۔ ان کے ٹویٹ پر آنے والے ری ٹویٹ اور لائیکس نے ان کے خیالات کی رسائی میں یکدم اضافہ کردیا۔ البتہ اسی مقبولیت اور اثر پذیری کے باعث جعلی اکاؤنٹ اور بوٹس کے مسئلے نے جنم لیا۔
جب طے ہوگیا کہ ٹوئٹر رائے عامہ ہموار کرنے میں دیگر سوشل میڈیا سائٹس سے زیادہ باقوت ہے تو سیاسی، سماجی اور شوبز شخصیات اور تنظیموں نے اپنی رسائی میں اضافے کے لیے جعلی اکاؤنٹ اور بوٹس کی مدد لینی شروع کر دی۔ یہ مسئلہ اس وقت ابھر کر سامنے آگیا جب ایلون مسک نے ٹوئٹر کو خریدنے کا اعلان کیا۔
ایلون مسک کی آمد
جلد ٹوئٹر ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی بن گئی۔ اس کے شیئر مہنگے داموں فروخت ہونے لگے۔ 2021ء تک کئی سرمایہ کار اس کے شیئر خرید چکے تھے۔ معروف ارب پتی (ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے مالک) ایلون مسک نے 2022ء میں ٹوئٹر کے حصص خریدنے شروع کیے اور وہ کمپنی کے سب سے بڑے شیئر ہولڈر بن گئے۔ آخر انہوں نے 44 ارب ڈالر کے عوض کمپنی خریدنے کی پیش کش کردی۔
ٹوئٹر کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے پہلے پہل ایلون مسک کی پیشکش پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ کمپنی کی لاگت مسک کی پیش کش سے زیادہ ہے مگر شیئر ہولڈرز کے دباؤ کے باعث یہ پیش کش قبول کر لی گئی۔
البتہ تب ایلون مسک نے کمپنی کی جانب سے فراہم کردہ نامکمل ڈیٹا، جعلی اکاؤنٹس اور بوٹس سے متعلق خدشات ظاہر کرکے ایک تنازع کھڑا کردیا اور یہ ڈیل عارضی طور پر روک دی گئی۔ معاملہ عدالت تک پہنچا۔ آخر کار اکتوبر 2022ء میں ایلون مسک نے کمپنی خرید لی۔ اس کے بعد تبدیلیوں کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جس نے ٹوئٹر کو نہ صرف ایکس بنا دیا بلکہ اس کی اعتبار اور انفرادیت بھی قصہ پارینہ ہوئی۔
ایلون مسک کے متنازع اقدامات پر ایک نظر
ایلون مسک نے ٹوئٹر خریدنے کے بعد کئی متنازع اقدامات لیے جن سے صارفین میں سراسمیگی پھیل گئی اور کمپنی کی امیج میں دراڑ پڑ گئی۔ ٹیکنالوجی ٹائیکون نے ٹوئٹر کے سی ای او، پراگ اگروال سمیت اعلیٰ انتظامیہ کو برطرف کردیا جس سے قائدانہ خلا پیدا ہوگیا۔
دوسرا حملہ ٹوئٹر کے ’ویریفائیڈ بلیو ٹک‘ پر تھا۔ تب ٹوئٹر انتظامیہ باقاعدہ جانچ پڑتال اور کڑے تجزیے کے بعد معروف شخصیات کے اکاؤنٹس کو تصدیقی بلیو ٹک بلامعاوضہ فراہم کرتی تھی جو اعتبار کا ضمن تصور کیا جاتا۔ اس بلیو ٹک کے وسیلے ہم باآسانی یہ جان سکتے تھے کہ ہم باراک اوباما کو فالو کررہے ہیں یا ان کے نام پر بنے فیک اکاؤنٹ کو۔
صارفین ہی نہیں، میڈیا آرگنائزیشن بھی اپنی خبروں اور فیکٹ چیک کے لیے ان ہی تصدیق شدہ اکاؤنٹس پر انحصار کرتی تھیں مگر ایلون مسک نے ٹوئٹر پر ویریفائیڈ اکاؤنٹس کے نظام کو پیڈ سبسکرپشن میں تبدیل کرکے تہلکہ مچا دیا۔
اب کوئی بھی شخص ایک مخصوص رقم ادا کرکے بلیو ٹک حاصل کرسکتا تھا۔ مسک کا دعویٰ تھا کہ اس عمل کا مقصد کمپنی کو منافع بخش بنانا ہے مگر اس کے باعث جعلی اکاؤنٹس کی قطار لگ گئی اور مشہور شخصیات اور برانڈز کے جعلی اکاؤنٹس کا انبار لگنے لگے۔
ایلون مسک نے ٹوئٹر کی سابق پالیسیز کو تبدیل کرتے ہوئے اسے آزادی اظہار کا مؤثر ذریعہ بنانے کا اعلان کیا تھا مگر نئی پالیسیز کے نتیجے میں نفرت انگیز مواد اور جعلی خبروں کی شکایات بڑھ گئیں۔
تنازعات میں گھرے ایلون مسک ٹوئٹر کا انتظام سنبھالنے کے بعد حالات پر معمول پر لانے کے بجائے بڑے میڈیا گروپس سے الجھ پڑے۔ نیویارک ٹائمز نے ویریفائیڈ بلیو ٹک کے لیے معاوضہ ادا کرنے سے انکار کردیا جس کے بعد اپریل 2023ء میں اس کا بلیو ٹک ختم کردیا تھا۔ ادارے اور ایلون مسک کے لیے درمیان لفظی گولا باری بھی ہوئی۔
مگر معاملہ یہیں نہیں تھما۔ اپریل 2023ء ہی میں امریکی نیشنل پبلک ریڈیو اور پبلک براڈکاسٹنگ سروس نے ٹوئٹر چھوڑنے کا اعلان کر دیا جس کا سبب ٹوئٹر کی جانب سے اپنی نئی پالیسی کے تحت ان اکاؤنٹس کو حکومت سے ملحقہ میڈیا کے طور پر شناخت کرنے کا اعلان کیا جبکہ مذکورہ اداروں کا مؤقف تھا کہ وہ ادارہ جاتی سطح پر مکمل طور پر آزاد ہیں۔
بی بی سی اور ٹوئٹر کے درمیان بھی کھٹ پٹ چلتی رہی۔ ممتاز برطانوی اخبار گارڈین بھی ایلون مسک کا ناقد رہا ہے۔ اس نے بھی نومبر 2024ء میں آخر کار ایکس سے رخصتی کا اعلان کرتے ہوئے ایلون مسک کی پالیسیز کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ماہرین کے نزدیک معتبر میڈیا گروپس کی ایکس سے رخصتی ادارے کی ساکھ پر کسی ضرب سے کم نہیں۔
ٹوئٹر اور ٹرمپ
ٹوئٹر کی سابق انتظامیہ کی جانب سے نفرت انگیز، نسلی تعصب اور فیک نیوز سے متعلق ایک خاص نوع کی سینسر شپ نافذ تھی جس کے نتیجے میں ٹویٹ یہاں تک کہ اکاؤنٹ بھی ڈیلیٹ ہوجاتے جس کی ایک مثال ڈونلڈ ٹرمپ کے اکاؤنٹ کی معطلی تھی۔
یاد رہے کہ سال 2020ء کے صدارتی انتخابات میں شکست کے بعد جنوری 2021ء میں ٹرمپ کے حامیوں نے واشنگٹن میں کیپٹل ہل پر چڑھائی کر دی تھی۔ ان فسادات میں چھ ہلاکتیں اور 200 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ اس موقع پر ٹوئٹر نے ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاؤنٹ یہ کہتے ہوئے عارضی طور پر مطلع کردیا کہ سابق صدر کے ٹویٹ ٹوئٹر کی پالیسیز کے خلاف ہیں۔
ایلون مسک نے ٹوئٹر کا انتظام سنبھالنے کے بعد آزادی اظہار کے نام پر جو بڑے اقدامات کیے، ان میں سے ایک ڈونلڈ ٹرمپ کے اکاؤنٹ کی بحالی بھی تھا۔ مسک کی جانب سے ٹوئٹر پر ایک پول کروایا گیا۔ اکثریت نے اکاؤنٹ کی بحالی کے حق میں فیصلہ دیا جس کے بعد نومبر 2022ء میں ٹرمپ کا اکاؤنٹ بحال کردیا گیا۔ خیال رہے کہ انتخابات میں شکست کے بعد ٹرمپ نے Truth Social کے نام سے اپنا سوشل میڈیا پلیٹ فارم قائم کیا تھا جہاں وہ خاصے متحرک رہے۔
ٹرمپ کے اکاؤنٹ کی بحالی ایک معمول کا فیصلہ لگ سکتی تھی مگر اس اقدام سے آنے والے طوفانوں کی دستک سنی جاسکتی تھی۔
صدارتی انتخابات 2024ء میں ایلون مسک نے ایکس کو ٹرمپ کی تشہیر میں مؤثر طریقے سے استعمال کیا۔ ایک جانب جہاں وہ اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میںڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت میں ٹویٹ داغتے رہے وہیں ان کے پلیٹ فارم نے بھی ٹرمپ کے حق میں ٹویٹ کی جانے والی فیک نیوز پر کسی نوع کی روک نہیں لگائی۔
سنجیدہ تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ آزادی اظہار کی آڑ میں ایلون مسک کی جانب سے ٹرمپ کی حمایت سے نسلی تعصب، نفرت انگیز مواد اور فیک نیوز کو فروغ مل سکتا ہے۔ ٹرمپ کی جیت کے بعد کیا یہ اندیشے حقیقت کا روپ اختیار کریں گے؟
بلیو اسکائی کی مقبولیت میں اضافہ
ایسے میں جب ٹوئٹر زوال پذیر ہے تو ہمیں بلیو اسکائی نامی ایک نئے پلیٹ فارم کی بازگشت سنائی دیتی ہے جوکہ ٹوئٹر کا ہی پرتو محسوس ہوتا ہے۔
2019ء میں ٹوئٹر کے شریک بانی اور پہلے سی ای او جیک ڈورسی نے بلیو اسکائی کی بنیاد رکھی جبکہ اس کی آزمائش 2023ء میں ہوئی۔ گزشتہ 10 ماہ میں بلیو اسکائی پر بنائے گئے اکاؤنٹس کی تعداد 10 لاکھ سے بھی کم تھی لیکن گزشتہ ایک ہفتے میں پلیٹ فارم پر 10 لاکھ سے زائد نئے اکاؤنٹس بنائے گئے ہیں اور کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اب ہر 15 منٹ میں بلیو اسکائی پر 10 ہزار نئے اکاؤنٹس بنائے جا رہے ہیں۔
متعدد برطانوی، امریکی اور یورپی ممالک کے مختلف میڈیا ہاؤسز ایکس یعنی ٹوئٹر کو چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں جبکہ امریکا کے کئی سیاست دان، سماجی رہنما اور صحافیوں نے بھی ایکس کے اکاؤنٹس کو غیر فعال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دنیا بھر کی شخصیات و عام شہریوں کی بڑی تعداد بلیو اسکائی سے جڑ رہی ہے۔
جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو رواں برس فروری سے پاکستان میں ایکس پر پابندی عائد ہے۔ رواں ماہ وی پی این پر لگائی جانے والی بندش کے بعد سے پاکستانی صحافیوں سمیت دیگر اہم شخصیات نے بلیو اسکائی پر اپنے اکاؤنٹس بنالیے ہیں۔ لیکن آج 19 نومبر کی صبح سے یہ رپورٹس موصول ہورہی ہیں کہ پاکستان میں بلیو اسکائی کی سروسز بھی بند کردی گئی ہیں۔
پاکستان میں بلیو اسکائی کی بندش سے قطع نظر کیا دنیا بھر کے عوام کی اس نئے پلیٹ فارم میں دلچسپی نشاندہی کرتی ہے کہ ٹوئٹر کا قصہ تمام ہونے کو ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں تھوڑا انتظار کرنا ہوگا۔
لکھاری مضمون نگار، استاد، قاری اور فلم بین ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔