پاکستان

’پاکستان کو 2050 تک کاربن کے کم اخراج کی طرف منتقلی کیلئے 390 ارب ڈالر درکار ہیں‘

توانائی کے شعبے میں یہ بڑی سرمایہ کاری توانائی کی بچت کے حصول کے لیے ٹرانسپورٹ اور مقامی شعبوں میں درکار سرمایہ کاری کے علاوہ ہے، ایشیائی ترقیاتی بینک

ایشیائی ترقیاتی بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان کو کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے بین الاقوامی وعدوں کو پورا کرنے کے لیے صنعت میں کوئلے سے گیس کی طرف منتقلی، ٹرانسپورٹ کو بجلی پر منتقل کرنے اور کھانا پکانے کے لیے گیس سے بجلی کی جانب منتقلی کے ذریعے کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے بین الاقوامی وعدوں کو پورا کرنے کے لیے 2050 تک 390 ارب ڈالر سے زیادہ کی اضافی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔

ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کی رپورٹ ’پاکستان لو-کاربن انرجی آؤٹ لک اینڈ ٹیکنالوجی روڈ میپ‘ میں کہا گیا ہے کہ مطلوبہ توانائی کی توسیع کے منصوبے بڑی سرمایہ کاری کے وعدوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔

کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے پن بجلی کی پیداوار میں 153 ارب ڈالر، جوہری توانائی میں 103 ارب ڈالر، ہوا کی توانائی میں 62 ارب ڈالر اور شمسی توانائی میں 51 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بجلی کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے اور گرڈ کے استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن شعبوں میں بھی 22 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

توانائی کے شعبے میں یہ بڑی سرمایہ کاری توانائی کی بچت کے حصول کے لیے ٹرانسپورٹ اور مقامی شعبوں میں درکار سرمایہ کاری کے علاوہ ہے۔

منیلا میں مقیم قرض دینے والی ایجنسی نے کہا کہ ’اس طرح کی پرعزم سرمایہ کاری کے پروگرام کو حاصل کرنا مشکل ہوگا۔‘

رپورٹ میں میں کہا گیا ہے کہ براہ راست حکومتی فنڈنگ ​​محدود ہونے کا امکان ہے، اس لیے زیادہ تر فنڈز غیر ملکی اور ملکی نجی شعبے سے براہ راست سرمایہ کاری، ایکویٹی فنڈنگ، بینک کریڈٹس اور بانڈ ایشوز کے ذریعے آنا ہوں گے، اور بین الاقوامی مالی امداد کی ضرورت ہوگی جس کے لیے بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہوگی۔

اس نے کہا گیا ہے کہ ’اس بڑے پیمانے پر فنڈنگ ​​کے ممکن ہونے کے لیے سرمایہ کاری کے لیے ماحول حوصلہ افزا ہونا چاہیے۔‘

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے توانائی کے شعبے سے گرین ہاؤس گیسز کا اخراج 2030 میں موجودہ سطح سے تقریباً 23 فیصد اور 2050 میں 36 فیصد کم کرنا ہوگا، اسی صورت میں تقریباً ایک تہائی کم اخراج کے باوجود موجودہ شرح نمو ممکن ہوگی۔

اس کے لیے مالیاتی ثالثی کے نظام کو مضبوط بنانے، نجی شعبے کے لیے مراعات کو ماحولیاتی پالیسی کے اہداف کے ساتھ ہم آہنگ کرنے، ریگولیٹری نظام کو ان اہداف کو مؤثر طریقے سے سپورٹ کرنے کو یقینی بنانے، اور پروجیکٹ کی تیاری اور عمل درآمد کا ایک ایسا نظام تیار کرنے کی ضرورت ہوگی جو کثیر الجہتی اور دو طرفہ ڈونر تنظیموں کی ضروریات کو پورا کرے۔

اگر ان شعبوں میں کوئی بڑی پیش رفت ہوتی ہے تب ہی یہ سوچنا حقیقت پسندانہ ہو گا کہ کاربن کے کم اخراج کو مکمل طور پر فنڈ اور لاگو کیا جا سکتا ہے۔

مزید برآں، توانائی کی ترسیل کے مؤثر نظام کی منصوبہ بندی، رسد اور طلب میں لچک کے لیے مناسب طریقہ کار اور مراعات، قلیل مدتی نظام میں توازن، اور استحکام کے طریقہ کار کو کاربن کے کم اخراج والے راستے پر منتقلی کی حمایت کرنے کی ضرورت ہوگی۔