پاکستان

امریکی قانون سازوں کا جو بائیڈن سے عمران خان کی رہائی کیلئے پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ

حکمران مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے خط کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا۔

50 کے قریب امریکی قانون سازوں نے امریکی صدر جو بائیڈن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ 20 جنوری کو اپنی مدت صدارت ختم ہونے سے پہلے پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ عمران خان کے ساتھ دیگر سیاسی قیدیوں کو رہا کرے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق حکمران مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے خط کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا۔

جمعہ کو 46 ڈیموکریٹ اور ریپبلکن قانون سازوں کی طرف سے بھیجا جانے والا یہ خط ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں اس طرح کا دوسرا مراسلہ تھا۔

پہلے خط کے برعکس جس کی حمایت مکمل طور پر ڈیموکریٹس نے کی تھی، یہ مشترکہ طور پر ڈیموکریٹک کانگریس وومن سوسن وائلڈ اور ان کے ریپبلکن ہم منصب جان جیمز نے لکھا خط پر دستخط کرنے والے 46 میں سے 20 ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔

اس میں فروری 2024 کے انتخابات کے بعد پاکستان میں انسانی حقوق کی بگڑتی صورتحال کو اجاگر کیا گیا جب کہ یہ انتخابات مبینہ طور پر متنازع اور وسیع پیمانے پر بے ضابطگیوں، انتخابی دھوکا دہی، اور پی ٹی آئی پر ریاستی دباؤ سے متاثرہ تھے۔

قانون سازوں نے امریکی اقدامات کے لیے ایک فریم ورک کے طور پر جون 2024 میں منظور کی گئی قرارداد کا حوالہ دیا۔

خط میں الزام لگایا گیا کہ پاکستانی حکام نے انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کے حق میں رائے دہی سے محروم کیا گیا، دھاندلی کرکے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کے حق میں جانے والے نتائج کو تبدیل کیا گیا اور کامن ویلتھ آبزرور گروپ اور یورپی یونین جیسی عالمی تنظیموں سے متعلق الیکشن مانیٹرنگ رپورٹس کو دبایا گیا۔

اس میں کیا گیا کہ انتخابات کے بعد سے شہری آزادیوں، خاص طور پر اظہار رائے کی آزادی پر بے انتہا پابندیوں کے باعث صورتحال مزید خراب ہو گئی۔

خط میں انٹرنیٹ تک رسائی کو سست کرنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، بغیر قانونی جواز کے حراستوں اور ڈی فیکٹو فائر وال“ کے استعمال پر تنقید کی گئی۔

عمران خان کی گرفتاری

قانون سازوں کے خط میں اپیل کا مرکز عمران خان کی گرفتاری تھی، اس میں کہا گیا کہ عمران خان کو پاکستان کی مقبول ترین سیاسی شخصیت سمجھا جاتا ہے جن کی گرفتاری پر عالمی سطح پر تنقید کی گئی ہے۔

قانون سازوں نے صوابدیدی حراست سے متعلق اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹس کا حوالہ دیا جن میں سب پی نے پی ٹی آئی کے بانی کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔

اس میں جیل میں بند پی ٹی آئی کی رہنما یاسمین راشد اور شاہ محمود قریشی کا بھی ذکر کیا گیا۔

خط میں کہا گیا کہ ہم فوری طور پر امریکی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سابق وزیر اعظم عمران خان اور تمام سیاسی قیدیوں کی فوری رہائی کی حمایت کرے، قانون سازوں نے اقوام متحدہ کی سفارشات کے مطابق ان قیدیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کی اہمیت پر زور زور دیا۔

سفارت خانے پر تنقید

قانون سازوں نے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے پر پاکستانی نژاد امریکی کمیونٹی کے تحفظات دور کرنے یا پاکستان میں جمہوری اصولوں کی وکالت کرنے میں ناکامی پر تنقید کی۔

خط میں کہا گیا کہ انتخابات کے فوری بعد امریکی سفارت خانے نے ایک بیان جاری کیا جس میں نئی ​​انتظامیہ کا خیرمقدم کیا گیا، اس خط میں مزید کہا گیا کہ انتخابی نتائج کی قانونی حیثیت کے بارے میں وسیع تر خدشات کے باوجود یہ مبارکباد دی گئی۔

انہوں نے جو بائیڈن انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ آنے والے امریکی سفیر پاکستان میں انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کو ترجیح دیں۔

قانون سازوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کی حمایت کرنے کے لیے واشنگٹن کی اخلاقی اور اسٹریٹیجک ذمہ داریاں ہیں۔

اس میں کہا گیا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے ممالک کے مشترکہ بہت سے اہم مفادات صرف اسی صورت میں موثر اور پائیدار طریقے سے آگے بڑھ سکتے ہیں جبکہ امریکی سوچ جمہوری عمل اور عالمی حقوق کے حوالے سے ہم آہنگ ہو۔

رد عمل

لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے غیر ملکی مداخلت کو دعوت دے رہی ہے۔

پرائم منسٹر یوتھ پروگرام کے چیئرمین اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا مشہود نے کہا کہ خط میں پاکستان میں انتخابی دھاندلی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بے بنیاد الزامات کو دہرایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں غیر ملکی مداخلت کو باضابطہ دعوت دے کر پی ٹی آئی نے یوٹرن لے کر اپنے ’امریکی مداخلت ’ کے خلاف سابقہ بیانیے کے بلکل برعکس ’امریکی مداخلت ضروری ہے‘ کا بیانیہ اپنالیا۔

پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے خط کو ’حقیقی آزادی‘ کے تابوت میں ایک اور کیل قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی پر غیر ملکی مداخلت کو دعوت دینے کا الزام لگایا۔

انہوں نے کہا کہ یہ خط پاکستان کے سیاسی نظام اور عدلیہ کی آزادی کو چیلنج کرتا ہے۔

شیری رحمٰن نے اسے پی ٹی آئی کا دوہرا معیار قرار دیا اور اپریل 2022 میں عمران خان کی برطرفی میں امریکی مداخلت کے پی ٹی آئی کے ماضی کے الزامات کا حوالہ دیا۔

واضح رہے کہ امریکی ایوان نمائندگان کے 60 سے زائد اراکین نے گزشتہ ماہ بھی امریکی صدر جو بائیڈن کو خط لکھا تھا، جس میں سابق وزیراعظم عمران خان سمیت پاکستانی جیلوں میں موجود سیاسی قیدیوں کی رہائی کرانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کانگریس کے رکن گریگ کیسر کی قیادت میں گروپ نے جو بائیڈن سے پاکستان کے حوالے سے امریکی پالیسی میں انسانی حقوق کو مرکزی حیثیت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

امریکی اراکین نے لکھا تھا کہ ’ہم عمران خان کی فوری رہائی اور پاکستان میں پارٹی کے اراکین کی بڑے پیمانے پر نظر بندی کے خاتمے کے مطالبے کی تائید کرتے ہیں، ہم آپ کی انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر پاکستانی حکومت سے عمران خان کی حفاظت کی ضمانت لے، اور امریکی سفارت خانے کے عہدیداروں پر جیل میں عمران خان سے ملاقات پر زور دیں‘۔

جم میک گورن اور سمر لی کی مشترکہ قیادت میں لکھے گئے اس خط پر ڈیموکریٹس جن میں راشدہ طلیب، الہان عمر، الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز، باربرا لی، بریڈ شرمین، ڈیبی واسرمین شولٹز اور رو کھنہ و دیگر نے دستخط کیے تھے۔

خط میں کہا گیا تھا کہ ’ہم پاکستانی نژاد امریکی عوام کے ساتھ ساتھ ملک اور دنیا بھر میں کمیونٹی رہنماؤں اور منتخب عہدیداروں کے ساتھ مل کر پاکستانی عوام سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ایک حقیقی جمہوریت کی جدوجہد میں شامل ہوئے ہیں‘۔

یاد رہے کہ گریگ کیسر نے ہی رواں سال فروری میں امریکی کانگریس کے تقریباً 30 ارکان کے ہمراہ صدر جو بائیڈن اور سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کو 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کی شفافیت کے بارے میں اپنے خدشات سے متعلق خط لکھا تھا۔

عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے گرفتار رہنماؤں کی رہائی کیلئے سینیٹ میں قرارداد جمع

امریکی قانون سازوں نے عمران خان کی رہائی کیلئے امریکی صدر کو خط لکھ دیا

عمران خان کیخلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق کوئی اشارے نہیں ملے: برطانوی وزیر خارجہ