پاکستان

پاکستان اور آئی ایم ایف میں بات چیت مکمل، یکم جنوری سے زرعی ٹیکس لگانے کی یقین دہانی

چاروں صوبوں کے بجٹ سرپلس کی شرط بھی پوری کر دی گئی، پہلی سہہ ماہی میں پنجاب کا 40 ارب روپے کا سرپلس ہو گیا، وزارت خزانہ کی تصدیق

پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان بات چیت مکمل ہو گئی جبکہ حکومت نے یکم جنوری2025 سے صوبوں میں انکم ٹیکس عائد کرنے کی یقین دہانی کروادی۔

ڈان نیوز کے ذرائع کے مطابق مشن چیف کی سربراہی میں آئی ایم ایف کے وفد نے 5 روز تک پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت کی، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے آئی ایم ایف مشن نے الوداعی ملاقات بھی کرلی ہے۔

ذرائع کے مطابق عالمی مالیاتی ادارے کو یکم جنوری 2025 سے صوبوں میں انکم ٹیکس عائد کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی جبکہ چاروں صوبوں کے بجٹ سرپلس کی شرط بھی پوری کر دی گئی ہے۔

دریں اثنا مالی سال 25-2024 کی پہلی سہہ ماہی میں حکومت پنجاب کا 40 ارب روپے کا صوبائی سرپلس ہو گیا، وزارت خزانہ نے حکومت پنجاب کے صوبائی سرپلس کے حصول کے دعوے کی تصدیق کردی۔

پنجاب حکومت نے مالی سال 25-2024 کےلیے بجٹ میں صوبائی سرپلس کی مد 630ارب روپے کا ہدف مقرر کردیا جس پر آئی ایم ایف نے اتفاق کرلیا ہے، وزارت خزانہ نے پہلی سہہ ماہی میں مالیاتی آپریشن کے اعداد و شمار آئی ایم ایف کے ساتھ 14 نومبر کو شئیر کردیے۔

’آئی ایم ایف اہداف کے حصول میں خیبرپختونخوا سب سے آگے‘

ادھر مشیرخزانہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے دیے گئے ہدف میں خیبرپختونخوا سب سے آگے نکل گیا، مالی انتظام کے حوالے سے پنجاب اب بھی کم کارکردگی کا مظاہرہ کررہا ہے، فنانشل کارکردگی کے حوالے سے پنجاب تمام صوبوں میں چوتھے نمبر پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوانے45 ارب روپے ہدف کے مقابلےمیں سرپلس 103 ارب روپے، سندھ نے 75 ارب روپے ہدف کے مقابلے میں سرپلس 130 ارب روپے جبکہ بلوچستان نے 27 ارب روپے ہدف کے مقابلے میں سرپلس 85 ارب روپے حاصل کر لیے۔

انہوں نے کہاکہ پنجاب نے 150 ارب روپے ہدف کے مقابلے میں سرپلس 40 ارب روپے حاصل کیے، خلاصہ یہ کہ پنجاب کی کارکردگی مالی انتظام کے حوالے سے مایوس کن ہے۔

واضح رہے کہ آئی ایم ایف کی ٹیم 11 نومبر کو ناتھن پورٹر کی سربراہی میں پاکستان پہنچی تھی اور پہلے دن ٹیکنیکل سطح پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔

ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف ٹیم سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)، وزارت خزانہ، اسٹیٹ بینک اور وزارت توانائی کے حکام نے ملاقات کی تھی۔

ذرائع کے مطابق ایف بی آر کے اہداف میں کمی کو پورا کرنے پر بات چیت ہوئی، اس کے علاوہ انرجی سیکٹر کی اصلاحات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیاتھا۔

ذرائع کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی عائد کرنے کی تجویز دی گئی تھی ، اس وقت صفر جی ایس ٹی عائد ہے، پیٹرولیم مصنوعات پر 60 روپے فی لیٹر پیٹرولیم لیوی وصول کی جا رہی ہے، جسے بڑھا کر 70 روپے کرنے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔

ڈان نیوز کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات کے دوسرے روز ٹیکس شارٹ فال، تاجر آسان ٹیکس، توانائی شعبے، ایف بی آر اصلاحاتی پلان پر بریفنگ دی گئی تھی۔

اجلاس میں آئی ایم ایف نے سولرائزیشن کو محدود کرنے اور پیٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) عائد کرنے کے علاوہ لیوی بھی 70 روپے کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

اجلاس کے دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس شارٹ فال اور تاجر آسان ٹیکس سکیم کے بارے میں بھی بریفنگ دی تھی،ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف ٹیم نے اجلاس کے دوران سخت سوالات بھی کیے تھے۔

ایف بی آر نے ٹیکس شارٹ فال کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ مہنگائی اور درآمدات میں کمی کی وجہ سے ٹیکس شارٹ فال آیا، رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ ٹیکس وصولی ہدف سے 190 روپے کم ہوئی جبکہ تاجر دوست اسکیم کا ہدف حاصل نہیں کیا جاسکا۔

اجلاس کے دوران آئی ایم ایف کو ایف بی آر کے اصلاحاتی منصوبے اور توانائی شعبے کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی اور سولرائزیشن کو محدود کرنے پر بھی زور دیاگیا، عالمی مالیاتی فنڈ ٹیم کی جانب سے سولر نیٹ میٹرنگ کے نظام پر بھی سوالات کیے گئے۔

ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ آئی ایم ایف نے پیٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) عائد کرنے کے علاوہ لیوی بھی 70 روپے کرنے کا مطالبہ کیا تھا، عالمی مالیاتی ادارے کی تجویز ماننے کی صورت میں 16 نومبر سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں نمایاں اضافے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔

دریں اثنا آئی ایم ایف مشن کے سربراہ ناتھن پورٹر نے 7 ارب ڈالر قرض معاہدے کا جائزہ لینے کے لیے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے ملاقات کی تھی۔

دریں اثنا ڈان اخبار میں شائع خبر میں معاشی ماہرین نے ریونیو اہداف سمیت کچھ کلیدی اہداف کی تکمیل میں ناکامی پر مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا، جس کے باعث ان خدشات میں اضافہ ہوا ہے کہ آئی ایم ایف اکتوبر تا دسمبر کی موجودہ سہ ماہی کے لیے کچھ مزید اور ممکنہ طور پر غیر مقبول اقدامات تجویز کر سکتا ہے۔