’فل فرائی یا ہاف فرائی‘، جعلی پولیس مقابلوں کا رجحان کیسے ختم کیا جائے؟
’ملزم اپنے ساتھیوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک (یا زخمی) ہوا جو واردات کے بعد موقع سے فرار ہوگئے جبکہ پولیس ٹیمیں ان کا سراغ لگا رہی ہیں‘۔ ہر مبینہ مقابلے کے بعد پولیس کی جانب سے اسی طرح کا بیان جاری کیا جاتا ہے۔
حالات اور علاقے مختلف ہوسکتے ہیں لیکن پولیس کی کہانی ایک جیسی ہی رہتی ہے۔ نہ جملے تبدیل کیے جاتے ہیں اور نہ ان میں شامل الفاظ میں ردو بدل کیا جاتا ہے۔
اسی طرز کا بیان اس وقت بھی سامنے آیا جب حال ہی میں گستاخی کے مقدمے کے ملزم ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کو پولیس مقابلے میں قتل کیا گیا۔ پولیس نے کہا کہ میرپورخاص میں فائرنگ کے تبادلے کے دوران وہ ’اپنے ساتھیوں کے ہاتھوں مارے گئے‘۔ تاہم جب میڈیا نے واقعے کی تحقیقات کی تو چند گھنٹوں میں ہی پولیس کے بیان کی قلعی کھول دی۔ جیسے ہی ’مبینہ جعلی مقابلے‘ کے الفاظ گردش کرنے لگے اور مذمتی بیانات آنے کا سلسلہ شروع ہوا تو سندھ حکومت بھی حرکت میں آگئی۔
اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ہم سب نے دیکھا تھا لیکن ایک حقیقت جس کا ذکر کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ وزیر داخلہ سندھ کے حکم پر کی جانے والی تحقیقات میں سامنے آیا کہ یہ ایک جعلی پولیس مقابلہ تھا۔
جعلی پولیس مقابلہ کیا ہوتا ہے؟
اس طرح کے ماورائے عدالت قتل کو انجام دینے کے لیے پولیس کے اختیار کیے گئے طریقہ کار اور ان کی وجوہات جاننے سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ پولیس مقابلے، جعلی انکاؤنٹر میں تبدیل کیسے ہوتے ہیں۔
جعلی پولیس مقابلہ وہ ہوتا ہے جس میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بالخصوص پولیس ایک ایسا منظر نامہ ترتیب دیتی ہے جس سے بظاہر لگتا ہے کہ ملزم تصادم یا فائرنگ کا نشانہ بنا ہے لیکن درحقیقت پولیس پہلے سے منصوبہ بندی کرکے ماؤرائے عدالت قتل کرتی ہے۔ اس کے بعد کے قانونی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پاکستان پینل کوڈ 1860ء میں پولیس کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
ماورائے عدالت قتل کے لیے پولیس جو حکمت عملی اختیار کرتی ہے وہ تقریباً پورے ملک میں ایک جیسی ہے۔ متاثرین کو پہلے گرفتار کرکے ہفتوں پولیس کی تحویل میں رکھا جاتا ہے۔ پھر کسی رات اسے سنسان علاقے جیسے سنسان قبرستان، زرعی زمینوں یا دریائی علاقوں میں لے جایا جاتا ہے جہاں ان کے سینوں میں گولیاں اتاردی جاتی ہیں۔
باضابطہ بیان میں پھر حسب معمول وہی کہا جاتا ہے کہ کہ ملزم ’الف‘ سے ہتھیار ضبط کرکے اسے منتقل کیا جارہا تھا کہ جب راستے میں اس کے ساتھیوں نے ’الف‘ کو پولیس کی تحویل سے چھڑانے کی کوشش کی لیکن پولیس نے جوابی کارروائی کی جس میں الف فائرنگ کی زد میں آگیا جس کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہوگئی جبکہ اس کے ساتھی فرار ہوگئے۔
اب اسے ذہن میں رکھتے ہوئے پاکستان کے کسی بھی صوبے، علاقے اور ضلع میں پیش آنے والے ماورائے عدالت قتل کے واقعے کو دیکھ لیں، تمام میں آپ کو ایک ہی طرح کا پیٹرن نظر آئے گا، ایک لفظ ادھر یا اُدھر نہیں ہوگا۔ لیکن جس طرح وہ ایک ہی مواد کا استعمال کرتے ہیں، اس نے معاملے کو مشکوک بنادیا ہے۔
فل فرائی اور ہاف فرائی
جعلی مقابلوں کا کلچر پورے ملک کی پولیس میں پھیل چکا ہے۔ درحقیقت پولیس کے مختلف رینکس میں یہ کسی عقیدے کی طرح سرایت کرچکا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں کہ یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا پسندیدہ کھیل کیوں ہے۔
شاید پسندیدہ کھیل جیسے الفاظ کچھ لوگوں کے لیے حساس نوعیت کے ہوں لیکن پولیس ماورائے عدالت قتل کو اسی نظر سے دیکھتی ہے۔ غیر حساسیت کی انتہا تو یہ ہے کہ پولیس میں اندرونی طور پر ماورائے عدالت قتل کے لیے ’فل فرائی‘ کی اصطلاح جبکہ ان ملزمان کے لیے ’ہاف فرائی‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جنہیں وہ دونوں پیروں کے گھٹنوں میں گولی مار کر عمر بھر کے لیے معذور کردیتے ہیں۔
مگر کبھی کبھی سب کچھ توقعات کے مطابق نہیں ہوتا جیسا کہ حال ہی میں پنجاب میں دیکھا گیا۔ پولیس نے ایک مبینہ ڈاکو کو پکڑا اور اسے ہاف فرائی کرنےکا فیصلہ کیا لیکن یہ کام ایک ناتجربہ کار پولیس اہلکار نے کیا جس کے نتیجے میں گولی اس جگہ نہ لگ سکی جس جگہ پولیس مارنا چاہ رہی تھی۔ اس کے بجائے گولی ملزم کے پیٹ کے نچلے حصے میں لگی جس سے وہ شدید زخمی ہوگیا اور اس کا بہت خون ضائع ہوا۔ خبریں سامنے آئیں کہ اسے ہسپتال منتقل کرنے میں تاخیر کی گئی اور درد کی شدت سے تڑپتے ہوئے اس نے اپنی آخری سانسیں لیں۔
کبھی کبھار ایسے جعلی پولیس مقابلے پولیس کی کوتاہیوں کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔ خراب تحقیقات کے ساتھ استغاثہ کی خراب کارکردگی کے باعث سزا کی شرح انتہائی کم ریکارڈ ہوتی ہے۔ لیکن اپنی تحقیقات کے طریقہ کار بہتر بنانے کے بجائے پولیس سزا دینے میں ناکامی کو عدالتی نظام کے کھاتے میں ڈالتی ہے۔
یہی وہ نظریہ ہے جس کے تحت وہ خود جج، جیوری اور جلاد بننے یعنی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کو درست سمجھتے ہیں جبکہ ان کے نزدیک انصاف ’فل فرائی‘ اور ’ہاف فرائی‘ کرنا ہے۔
’انہیں روکنے والا کوئی نہیں‘
پولیس میں بڑے پیمانے پر یہ تاثر پایا جاتا ہے یا جسے ہم یقین کہیں تو غلط نہیں ہوگا کہ تشدد کا مؤثر جواب تشدد ہی ہے۔ جعلی مقابلے پولیس کی جانب سے اختیار کیا جانے والا ایسا سرکاری تشدد ہے جس کے ذریعے وہ جرائم کی شرح کو قابو میں کرتے ہیں اور مجرمانہ سرگرمیوں کو روکتے ہیں۔ یوں ہم جعلی پولیس مقابلوں کی شرح میں غیرمعمولی اضافہ دیکھتے ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے مطابق سال 2023ء میں صرف سندھ میں 3 ہزار 296 پولیس مقابلے ہوئے اور جبکہ محض ایک سال میں پورے ملک میں پولیس مقابلوں میں مجموعی طور پر 618 افراد مارے گئے۔
2022ء کے دوران سندھ میں 2 ہزار 544 پولیس شوٹ آؤٹ کے واقعات ہوئے جبکہ اگلے سال یہ تعداد بڑھ کر 3 ہزار 296 ہوگئی یعنی ان میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ نشاندہی کرتا ہے کہ ہماری پولیس میں تشدد کا رجحان کس حد تک بڑھ چکا ہے۔ جیسا کہ انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ بتاتی ہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ پولیس مقابلوں میں اضافے کے باوجود 2023ء میں سندھ میں جرائم کی شرح میں بھی اضافہ دیکھا گیا جہاں اسٹریٹ کرائم میں 11 فیصد اضافہ ہوا۔
اس سے یہ تصور غلط ثابت ہوتا ہے کہ پولیس مقابلے جرائم کی شرح کم کرنے میں مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔
’انکاؤنٹر اسپیشلسٹس‘
کچھ پولیس اہلکار پولیس مقابلوں میں ملزمان کو ماورائے عدالت قتل کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ پولیس افسران اپنے محکمے میں دیگر اہلکاروں سے گفتگو کرتے ہوئے ان پولیس مقابلوں کے بارے میں بڑھ چڑھ کر گفتگو کرتے ہیں اور فخریہ انداز میں بتاتے ہیں کہ انہوں نے اب تک کتنے ملزمان کو پولیس مقابلے میں موت کے گھاٹ اتارا۔
انکاؤنٹر اسپیشلسٹ ایسے پولیس اہلکاروں کو کہتے ہیں جو جعلی پولیس مقابلوں میں لوگوں کو قتل کرنے میں مہارت رکھتے ہوں۔ ان نام نہاد انکاؤنٹر اسپیشلسٹ کے پسند کے تبادلے بھی ہوتے ہیں اور انہیں قتل کرنے کے لیے کھلا ہاتھ دے دیا جاتا ہے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس راؤ انوار ان جعلی مقابلوں میں ملوث تھے جن میں 444 افراد ہلاک ہوئے۔
ایک بار مجھے بھی ایسے ہی ایک ’انکاؤنٹر اسپیشلسٹ‘ سے ملاقات کا موقع ملا۔ مونچھیں گھماتے ہوئے اور چہرے پر مسکراہٹ لیے ہوئے اس شخص نے اعتراف کیا کہ اس نے کم از کم 20 لوگوں کو جعلی مقابلوں میں موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ میرے اس سوال پر کہ وہ ہر بار اس سے بچ نکلنے میں کیسے کامیاب ہوئے، انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ’لوگوں کو جعلی مقابلوں میں مارنا ایک فن ہے لیکن ریکارڈ سے چھیڑ چھاڑ کرکے ان ہلاکتوں کو چھپانے میں اس سے بھی زیادہ مہارت درکار ہوتی ہے‘۔
جعلی پولیس مقابلوں کے رجحان کے باوجود ہمیں ایسی بہت ہی کم مثالیں ملتی ہیں جن میں جعلی پولیس مقابلوں کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہو۔ حد تو یہ کہ زیادہ تر پولیس مقابلوں کے واقعات میڈیا کی نظر میں بھی نہیں آتے۔ اور جن کیسز میں جعلی پولیس مقابلے میڈیا پر نشر ہوتے ہیں، میڈیا کو خاموش کرنے کے لیے ذمہ دار حکام کا یہی مؤقف ہوتا ہے کہ مقدمہ درج کردیا گیا اور اس مقابلے میں ملوث پولیس اہلکاروں کو برطرف کردیا گیا ہے لیکن یہ برطرفی عارضی ہوتی ہے۔
ایک بار جب واقعے کا غبار چھٹ جاتا ہے تو ملزمان پولیس اہلکاروں باوردی ساتھیوں کی جانب سے کی گئی ناقص تحقیقات کی بدولت نہ صرف بچ نکلتے ہیں بلکہ ان کی تقرریاں بھی اچھے عہدوں پر ہوجاتی ہیں۔
کچھ معاملات میں جوڈیشل تحقیقات کا حکم دیا جاتا ہے لیکن پھر بھی پولیس تفتیش پر اثرانداز ہوتی ہے جس میں یا تو وہ ریکارڈ میں ردو بدل کرتے ہیں یا وہ مقتولین کے لواحقین کے ساتھ جبراً یا انہیں رقم کا لالچ دے کر معاملات طے کرلیتے ہیں۔
ان وحشیانہ کارروائیوں کو قانونی طور پر چیلنج کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ متاثرہ خاندان مجسٹریٹ کی عدالت میں پرائیویٹ شکایت درج کروائیں جوکہ ضابطہ فوجداری 1898ء کی دفعہ 190 میں واضح ہے۔ تاہم یہ طریقہ طویل، مہنگا ہے جبکہ اس سے عموماً انصاف کا حصول ممکن نہیں ہوپاتا۔ یہاں تک کہ اگر متاثرہ خاندان خندہ پیشانی سے اس راستے پر قائم رہتا ہے تو عدالت عام طور پر اسی پولیس فورس سے رپورٹس طلب کرتی ہے جس پر الزام لگایا گیا ہوتا ہے۔ یوں تفتیش منصفانہ نہیں ہوتی کیونکہ پولیس ہی عدالت کو معلومات فراہم کرتی ہے جو اپنے باوردی ساتھی کی مدد کرتے ہیں۔
اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز حقیقت یہ ہے کہ عدالتیں پولیس کی طرف سے پیش کردہ رپورٹس کی روشنی میں ان مقدمات کو نمٹا بھی دیتی ہیں۔ نتیجتاً جعلی مقابلوں کے ملزمان کو شاذو ناذر ہی سزا ہوتی ہے۔
راؤ انوار کا معاملہ ظاہر کرتا ہے کہ ’انکاؤنٹر اسپیشلسٹ‘ کو کیسے استثنیٰ دیا جاتا ہے۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کے پریشر کے باوجود وہ نقیب اللہ محسود کے قتل سے بری ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
آزاد تحقیقاتی کمیشنز کا قیام
صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟
ماورائے عدالت قتل کے مرتکب پولیس اہلکار اکثر اپنے جرم سے اس لیے بری ہوجاتے ہیں کیونکہ ایسے واقعات کی تفتیش انہی کے ساتھی کرتے ہیں۔ تحقیقات کا یہ طریقہ کار فطری طور پر ناقص اور انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔ ایسے واقعات کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد تحقیقاتی کمیشن کی ضرورت ہے، خواہ مقتول کے ورثا کی جانب سے اس کی اطلاع دی جائے یا نہ دی جائے۔
ہم اس حوالے سے جنوبی افریقہ سے سبق حاصل کرسکتے ہیں جہاں ایسے طریقہ کار موجود ہیں۔ 2011ء میں جنوبی افریقہ کی پارلیمنٹ نے ایک ایکٹ کے ذریعے آزاد پولیس تفتیشی ڈائریکٹوریٹ قائم کیا جہاں عوام جنوبی افریقی پولیس کے افسران کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں کے خلاف شکایات درج کرسکتے ہیں۔ زیرِ حراست تشدد اور موت، ماورائے عدالت ہلاکتوں کی صورت میں اسٹیشن کمانڈر جو پاکستان میں اسسٹنٹ/ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے رینک کے برابر افسر ہے، کمیشن کو فوری طور پر اطلاع دینے کا پابند ہوگا۔
اگر تحقیقات میں پولیس فورس کے کسی رکن کے خلاف الزامات ثابت ہوتے ہیں تو کمیشن پولیس قیادت کو کارروائی کی سفارش کرے گا جو کمیشن کی سفارشات کے مطابق کارروائی کرنے کا پابند ہوتا ہے۔
پاکستان میں پولیس اہلکاروں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بالخصوص ماورائے عدالت قتل کے لیے احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لیے ایسے طریقہ کار کی اشد ضرورت ہے۔ ہر صوبے میں ایک کمیشن ہونا چاہیے جس میں متعلقہ صوبائی اسمبلی کے منتخب اراکین کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کے اراکین بھی شامل ہوں۔ بعدازاں ہر علاقے میں کمیشن ماورائے عدالت قتل کے معاملے کو نمٹانے کے لیے ذیلی کمیٹیاں بنا سکتا ہے۔
اس طرح قائم کردہ کمیشن کو نہ صرف اس طرح کے قتل کی تحقیقات کرنے کا اختیار دیا جانا چاہیے بلکہ مجرم قرار ثابت ہونے والوں کے خلاف فوجداری اور تادیبی کارروائی کی سفارش بھی کرنا چاہیے۔
’تفتیش کا عمل اور ذہنیت کو تبدیل کرنا ہوگا‘
یہ روایتی تفتیش سے فرار اختیار کرنے کا پولیس کا طریقہ کار ہے جہاں وہ 19ویں صدی کے فرسودہ طریقے اپناتے ہیں اور تفتیش کے نتیجے میں ملزمان کو سزا نہیں ہوتی۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ پولیس پھر خود ہی انصاف کی فراہمی کا بیڑا اٹھا لیتی ہے اور معاشرے کو جرائم سے پاک بنانا چاہتی ہے۔ یوں وہ قانون کو ہاتھوں میں لے کر جعلی پولیس مقابلے کرتے ہیں۔
اس المیے کو حل کرنے کے لیے تفتیشی افسران کی صلاحیتوں کو بہتر بنانا انتہائی ضروری ہے۔ انہیں دنیا بھر میں استعمال ہونے والے جدید تحقیقاتی حربوں کی تربیت دی جانی چاہیے جن میں فرانزک سائنس، ڈیجیٹل فرانزکس اور ان کے سلوک پر تجزیہ شامل ہونا چاہیے۔ افسران کو بھی ٹیکنالوجی کے استعمال میں مہارت حاصل کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ آلات جدید تحقیقات میں بہت اہم ہیں۔
یہ ضروری ہے کہ یہ جدید سہولیات اور آلات پولیس اسٹیشن کی سطح پر دستیاب ہوں تاکہ افسران انہیں اپنے روزمرہ کے کاموں میں استعمال کرسکیں۔ اس کے علاوہ افسران کو دستیاب وسائل کا بہترین استعمال کرنے اور اپنی تحقیقات کو بہتر بنانے کے لیے ڈیٹا اینالیٹکس کی تربیت دی جانی چاہیے۔
ان تفتیشی اہلکاروں کو ثبوتوں، قانونی عمل کی ٹھوس معلومات ہونی چاہئیں کیونکہ اہلکاروں کی اکثریت میں اس کا شعور نہیں۔ نتیجتاً وہ یہ سمجھ نہیں پاتے کہ کون سے شواہد قانون کے دائرہ کار میں آتے ہیں اور انہیں کیسے محفوظ کرنا ہے، عدالت میں انہیں کیسے پیش کرنا ہے اور ٹرائل میں گواہی کیسے دینی ہے۔ اسے حل کرنے کے لیے معمول کے طور پر پولیس اہلکاروں کی ورک شاپس کا انعقاد ہونا چاہیے جس میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ جوڈیشل افسران، پروسیکیوٹرز اور وکلا کی بھی مدد لی جاسکتی ہے۔
ماؤرائے عدالت کے رجحان کو ختم کرنے کے لیے پولیس کو اپنا محکمہ جاتی احتساب کرنا ہوگا۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث افسران بالخصوص وہ انکاؤنٹر اسپیشلسٹ جو فخریہ انداز میں اپنے شرمناک کارنامے بتاتے ہیں انہیں محکمے سے برطرف کردینا چاہیے یا پھر کم از کم ان کے اختیارات کم کردینے چاہئیں۔ ایسے افسران جب تک انسانی حقوق کی پاسداری کا عہد نہیں کرتے یا تربیت نہیں لیتے تب تک ان کی تھانے میں تعیناتی نہیں ہونی چاہئیں۔
یہ تاثر نہ صرف پولیس کی صفوں میں بلکہ معاشرے میں بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ نام نہاد انکاؤنٹر اسپیشلسٹ، ’بہادر‘ یا ’خاص‘ ہیں۔ اسے اعزاز نہیں بلکہ شرمناک سمجھنا چاہیے۔
اقدامات کرنے کا وقت
یہ پالیسی سازوں کے لیے وقت کا تقاضا ہے کیونکہ ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کے قتل کے نتیجے میں ایک ریلی نکالی گئی، کراچی میں نقیب اللہ محسود کے قتل نے لوگوں کو مشتعل کیا اور 2019ء میں ساہیوال میں بچوں کے سامنے ایک خاندان کے المناک قتل کے بعد عوام میں پیدا ہونے والے غم و غصہ یاد دہانی کرواتا ہے کہ جعلی مقابلوں کا سلسلہ روکنا ہوگا۔ ایسے اقدامات کے لیے عوام اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے حاضر ہوں گے۔
بطور قوم یہ وقت ہے کہ ہم انسانی حقوق کی بنیادی خلاف ورزیوں پر اپنی آنکھیں بند نہ کریں۔ ہمیں ایسے مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہیں جنہوں نے متعدد خاندانوں کی زندگیاں اجاڑ دی ہیں۔ ان کے لواحقین جس ذہنی اذیت اور ٹراما سے گزرتے ہیں وہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
ہم لوگوں کو ان کے پیارے تو نہیں لوٹا سکتے جو اس پولیس گردی کی نذر ہوگئے لیکن ہم دیگر بیٹوں، بھائیوں اور شوہروں کی زندگیاں بچا سکتے ہیں۔ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم انسانیت کی خاطر متحرک ہوں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
لکھاری پولیس میں سب انسپکٹر ہیں اور اس وقت خصوصی یونٹ میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ان سے maharmurrawat240@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔