اسموگ پاکستان کا پانچواں موسم۔۔۔!
پنجاب کا ناپسندیدہ، پانچواں موسم یعنی اسموگ اس وقت عروج پر ہے۔ اگرچہ لاہور جیسے شہروں میں سال بھر ایئر کوالٹی خراب رہتی ہے لیکن اکتوبر سے جنوری کے درمیان یہ مہلک حد تک گر جاتا ہے جہاں اکثر اوقات ایئر کوالٹی انڈیکس 500 سے بھی زائد ریکارڈ کیا جاتا ہے۔
اسموگ سے نمٹنے میں حکومت کی حکمت عملی اب تک یہی رہی ہے کہ اسکولز بند کردیے جائیں اور مخصوص علاقوں میں لاک ڈاؤن نافذ کردیا جائے۔ بچوں اور دیگر کمزور افراد کو عوامی مقامات سے دور رکھ کر مہلک ہوا سے بچانا معقول ہے لیکن گھر میں ہوا کا معیار صاف تو نہیں۔
اسموگ کے موسم کے دوران غیرمعیاری فضا کے حوالے سے احتجاج اور شکایات عام ہوجاتی ہیں۔ کم از کم 2015ء سے کہ جب اکتوبر میں اسموگ ظاہر ہوئی تو ماہرِ ماحولیات اور دیگر ماہرین نے غور کیا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے۔ مختلف نوعیت کے جوابات سامنے آئے اور ابتدائی سالوں میں تو حکومت نے بھی اس معاملے میں دلچسپی کا اظہار نہیں کیا جو اسے حل کرنے میں معاون ثابت نہیں ہوا۔
تقریباً ایک دہائی بعد، ہم یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ہمیں فضائی آلودگی کے بحران کی وجوہات کے حوالے سے ادراک ہے۔ مطالعات کی مدد سے ہم جانتے ہیں کہ سالوں کا اوسط نکالنے پر گاڑیاں اور صنعتوں کا اخراج اس مسئلے کی جڑ کے طور پر سامنے آتے ہیں۔
کیمبریج اور آکسفورڈ کے سائنسدانوں عبداللہ باجوہ اور حسن شیخ نے اس پر مزید کام کیا اور ان کے کام کے بدولت ہمیں معلوم ہوا کہ کچھ عوامل ایسے ہیں جو فضا کی صورت حال کو مزید بگاڑتے ہیں جیسے پرانی گاڑیاں، پرانے رکشوں اور موٹر سائیکلوں میں دو اینجنز کا استعمال جبکہ غیرمعیاری ایندھن، اسموگ کی اہم وجوہات ہیں۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حالیہ مہینوں میں مشرقی پنجاب میں فصلوں کی باقیات کو نذرآتش کرنا اسموگ کی وجوہات میں شامل ہے۔ اس عمل سے بڑے پیمانے پر دھویں کا اخراج ہوتا ہے اور ہواؤں کے بدلتے رخ اور درجہ حرارت میں اضافے کے باعث یہ طویل عرصے کے لیے فضا میں موجود رہتی ہے اور ہوا کا معیار بدتر ہوتا چلا جاتا ہے۔
چونکہ اب ہمیں صورت حال کاشعور ہے تو اس مسئلے کے حل بھی ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ایندھن کے معیار میں بہتری، دھواں خارج کرنے والی گاڑیوں کے لیے سخت فٹنس معیارات، صنعتوں کے لیے سخت ضوابط اور سڑکوں پر رواں گاڑیوں کی تعداد کم کرنے کے لیے عوامی ٹرانسپورٹ کے بڑے نظام کا قیام، یہ وہ اقدامات ہیں جو 20ویں صدی میں فضائی آلودگی کا شکار شہروں نے اٹھائے تھے۔
حالیہ دور میں تو ہمارے پاس یہ آپشنز موجود ہیں کہ ہم نئی توانائی جیسے بجلی سے چلنے والے ذرائع آمد و رفت استعمال کریں تاکہ فضا میں بڑھتی آلودگی کے مسئلے کو کم سے کم کیا جاسکے۔
اسی طرح فضائی آلودگی سرحدوں تک محدود نہیں ہوتی، بھارتی اور پاکستانی پنجاب کو صاف ہوا کی ضرورت پر مل کر کام کرنا ہوگا۔ اگرچہ پورا سال مذکورہ بالا اقدامات کے ذریعے فضا کے معیار کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے جبکہ اکتوبر-نومبر کے مہینوں میں دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ جامع حل تلاش کرنے کے لیے باہمی تعاون کریں۔
پاکستان کی دیگر عوامی پالیسز کی طرح، مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہمارے پاس مجوزہ حل موجود نہیں۔ درحقیقت گزشتہ چند سالوں میں فضائی آلودگی کو کم کرنے کے حوالے سے بہت سے مطالعات سامنے آچکے ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے بھی بہت سی تجاویز سامنے آئی ہیں۔ ریاست کی صلاحیت اور مالی وسائل، عمل درآمد کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ یہی وہ چیلنجز ہیں جن کی وجہ سے قلیل مدتی یا ااس سے تھوڑی زیادہ مدت کے لیے ہوا کے معیار میں بہتری نہیں آرہی۔
قواعد و ضوابط اور مقاصد کے نفاذ کے لیے حکومتی ادارے، ریاست کی صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ کتنے کامیاب ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ماہرِ معاشیات مائیکل مان نے ریاست کی اس صلاحیت کو طاقتوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک قسم ڈسپوٹک ہے جس میں ریاست عوام کو ضوابط کی پیروی پر مجبور کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرتے ہیں جبکہ دوسری قسم انفرااسٹرکچرل ہے جو کہ تعاون، ہم آہنگی، اور طرز عمل کی تبدیلیوں پر مبنی ہے۔
انفرااسٹرکچرل طاقت ہمارے ملک کے اداروں میں کتنی کمزور ہے، یہ واضح ہے۔ سماجی کردار ہی قواعد و ضوابط کی پامالی کرتے ہیں یا ریاستی عہدیداران ہی اسے کمزور کرتے ہیں۔ جب ریاست خود خدمات فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہے تو وسائل کی کمی یا دیگر محرکات اس کے عمل درآمد کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
ریاست کی اسی کمزوری کے نتائج بڑے پیمانے پر نجکاری کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔ وہ لوگ جو ہاؤسنگ، پانی، صحت، تعلیم، حتیٰ کہ توانائی کے شعبہ جات میں حکومت پر اپنا انحصار چھوڑنے کے وسائل رکھتے ہیں، وہ حکومت سے بنیادی ضروریات کی فراہمی کی توقع کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ یوں مارکیٹ ان لوگوں کو سہولیات فراہم کرتی ہے جو اس کی ادائیگی کرسکتے ہیں۔ امیر اور طاقتور افراد حکومت پر انحصار نہ کرنے کی وجہ سے حکام پر ان لوگوں کو اپنی سہولیات فراہم کرنے کا دباؤ نہیں ہوتا جن کے پاس حکومت پر انحصار کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔
تاہم ایئر کوالٹی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے لیے چاردیواری میں تو ایئر پیوروفائرز کا استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن یہ مستقل حل نہیں کیونکہ یہ کھلی جگہ پر نصب نہیں کیے جاسکتے۔ جس طرح ایئر کوالٹی انڈیکس خراب تر ہوتا جارہا ہے، ایسے میں ایئر پیوروفائرز بھی کارگر ثابت نہیں ہوں گے۔ ہاں امرا کو صحت کی اعلیٰ سہولیات تک رسائی حاصل ہوگی اور غیرضروری طور پر وہ اپنے گھروں سے باہر بھی نہیں نکلیں گے لیکن یہ بجلی کا مسئلہ نہیں جو آف گرڈ سولر سسٹم یا جنریٹر لگا کر حل ہوجائے۔ آلودہ فضا کے اثرات سب پر مرتب ہوں گے۔
بحران کو حل کرنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں۔ مذکورہ بالا تمام اقدامات کے لیے نہ صرف مالی وسائل کی ضرورت ہے بلکہ ریاست کو اپنی قابلیت اور صلاحیت کے ذریعے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، جو ہم نے حالیہ برسوں میں شاذ و نادر ہی دیکھا ہے۔ کیا گاڑیوں کی فٹنس لیول کرنے والے محکمہ جات نگرانی کے عمل کو بہتر بنائیں گے؟
کیا مقامی منتظمین کو اتنے وسائل اور تحفظ فراہم کیا جائے گا کہ وہ آلودگی پھیلانے کے ذمہ دار صنعتی یونٹس کو بند کرسکیں؟ کیا قومی سلامتی کے معاملے پر تنگ نظر سوچ کو بالائے طاق رکھ کر بھارت کے ساتھ بامعنی سرحد پار تعاون شروع کیا جائے گا؟
ایسے اقدامات کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت میں اسموگ کے مسئلے کے حوالے سے یہ واضح سمجھ ہوکہ اسموگ صحت عامہ کا ایسا مسئلہ ہے جو ماضی حال کے کسی بھی بحران سے بڑا ہے۔ اسے حل کرنے کے لیے حکومت کو اس پر خصوصی توجہ دینا ہوگی جبکہ اسے حل کرنے میں کافی وقت درکار ہوگا۔ صرف موسم میں تبدیلی کی دعا کرنا یا یہ امید کرنا کہ لوگ اسے بھول جائیں گے یا اس کے عادی ہوجائیں گے، ان تصورات سے انسانی پھیپھڑوں کو محفوظ نہیں بنایا جاسکتا ہے۔
اسموگ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت کو اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا ہوگا، جبکہ یہ وقت کا تقاضہ ہے کہ ریاست اس حوالے سے متحرک ہو۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
لکھاری فری لانس کالم نگار ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: @umairjav
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔