پاکستان

اقوام متحدہ کی کمیٹی نے عام شہریوں کے فوجی ٹرائل کی مخالفت کردی

فوجی عدالتوں میں شہریوں کےخلاف پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے استعمال پر تشویش ہے، دائرہ اختیار کے تحت زیر حراست تمام شہریوں کو ضمانت پر رہا کرنا چاہیے، رپورٹ میں سفارش

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ فوجی عدالتوں سے متعلق قانون سازی پر نظر ثانی کے لیے فوری اقدامات کرے، شہریوں پر ان کا دائرہ اختیار ختم کرے، سزائے موت کے نفاذ کا اختیار ختم کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ان کی کارروائیاں شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے (آئی سی سی پی آر) کی مکمل تعمیل کریں تاکہ منصفانہ ٹرائل کے حق کی ضمانت دی جا سکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کو جنیوا میں اختتام پذیر ہونے والے اپنے تازہ ترین جائزے میں پاکستان کے معاملے کا جائزہ لینے کے بعد اپنی رپورٹ جاری کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی کمیٹی نے کہا کہ پاکستان کو فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار کے تحت زیر حراست تمام شہریوں کو ضمانت پر رہا کرنا چاہیے۔

کمیٹی نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا، کمیٹی نے ان رپورٹس پر بھی روشنی ڈالی جن میں 2015 سے 2019 کے درمیان زیادہ تر مقدمات میں سزائے موت دی گئی۔

عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے اقوام متحدہ کی کمیٹی نے پاکستان کے وفد کی جانب سے 26 ویں ترمیم اور اس کی منظوری کے عمل سے متعلق فراہم کردہ معلومات کو تسلیم کیا، تاہم اس نے ججز، پراسیکیوٹرز، وکلا، بار ایسوسی ایشنز اور سول سوسائٹی کے ساتھ پیشگی، وسیع اور شفاف مشاورت کے فقدان پر تشویش کا اظہار کیا۔

اقوام متحدہ کی کمیٹی نے پراسیکیوٹرز کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے قانونی فریم ورک اور ادارہ جاتی میکانزم، ان کی بھرتی، تقرری، تادیبی کارروائی اور برطرفی کے طریقہ کار کے بارے میں معلومات کی کمی پر افسوس کا اظہار کیا۔

دھمکیاں، ہراسانی کی شکایات

کمیٹی نے سیاسی لحاظ سے حساس مقدمات، بدعنوانی، دہشت گردی اور توہین مذہب سے متعلق مقدمات سے متعلقہ ججز اور پراسیکیوٹرز کو غیر ریاستی عناصر سمیت مسلسل ہراساں کیے جانے، ڈرانے دھمکانے کی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا۔

رازداری کے حق کے معاملے پر کمیٹی نے تشویش کا اظہار کیا کہ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ حکام کو عدالتی توثیق اور مناسب نگرانی کے بغیر ذاتی ڈیٹا تک رسائی، اسے محفوظ رکھنے اور اسے غیر ملکی حکومتوں کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے حد سے زیادہ وسیع اختیارات فراہم کرتا ہے۔

کمیٹی نے سفارش کی کہ حکومت فوری طور پر ڈیٹا کے تحفظ کا ایک جامع قانون تیار کرے جو بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات کے مطابق شفافیت، احتساب اور ڈیٹا کی رازداری کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

اقوام متحدہ کے پینل نے حکومت سے کہا کہ وہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ، بلیک لسٹ، پاسپورٹ کنٹرول لسٹ اور ویزا کنٹرول لسٹ سے متعلق اپنے قانونی فریم ورک اور پالیسیوں پر نظر ثانی اور ان میں ترمیم کرے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ وہ غیر منصفانہ بنیادوں پر نقل و حرکت کی آزادی کو محدود نہ کریں۔

جبری گمشدگیاں

اقوام متحدہ کی کمیٹی نے کہا کہ حکومت کو جبری گمشدگیوں کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے کہ ہر قسم کی گمشدگیوں کو فوجداری قانون میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے اور متعلقہ سزائیں جرم کی سنگینی کے پیش نظر عالمی معیار کے مطابق ہیں۔

کمیٹی نے صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے تحفظ کے ایکٹ 2021 کی منظوری کا ذکر کرتے ہوئے صحافیوں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے رضاکاروں کی جبری گمشدگیوں، تشدد، قتل، دھمکیوں اور ہراساں کیے جانے سے متلعق اکثر سامنے آنے والی رپورٹس پر تشویش کا اظہار کیا۔

اقوام متحدہ کی کمیٹی نے ریاست سے کہا کہ وہ صحافیوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کی جبری گمشدگیوں، تشدد، قتل اور دھمکیوں کے حوالے سے تحقیقات کرے، مجرموں کے خلاف کارروائی کرے اور متاثرین کو معاوضہ دے۔

بیان میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ آزادی اظہار رائے پر قدغن، جیسے انٹرنیٹ کی بندش، ویب سائٹس اور آن لائن وسائل کی بندش اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی لگانا بند کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ فوجداری قوانین اور انسداد دہشت گردی کے قانون کو صحافیوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کی زبان بندی کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔

حکومت کی تعریف

رپورٹ کا مثبت پہلو یہ ہے کہ کمیٹی نے متعدد قانونی اقدامات جیسے نیشنل جینڈر پالیسی فریم ورک 2022، خیبر پختونخوا میں خواتین کے خلاف ڈومیسٹک وائلنس ایکٹ 2021، دی پروٹیکشن آف جرنلسٹ اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2021، لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی ایکٹ 2020، دی پریونشن آف اسمگلنگ ان پرسن ایکٹ 2018، جووینائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018، ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 اور ایسڈ اینڈ برن کرائم ایکٹ 2018 کے نفاذ کا خیرمقدم کیا۔

کمیٹی نے کلائمیٹ چینج ایکٹ 2017 اور نیشنل ایڈیپٹیشن پلان 2023 جیسے اقدامات کے ساتھ ساتھ افغان مہاجرین کے پروف آف رجسٹریشن کارڈز کی میعاد میں جون 2025 تک توسیع کے فیصلے کو بھی سراہا۔