خواتین میں مظاہروں کا بڑھتا ہوا رجحان اور پولیس تشدد کی افسوس ناک روایت
آنسو گیس کا دھواں، ربڑ کی گولیوں کی بوچھاڑ، پانی کی توپ سے برستی تیز دھار اور اس کے مقابل مظاہرین میں گرتی پڑتی خواتین!
یہ مناظر اگرچہ ہمیں خال خال نظر آتے ہیں لیکن جب بھی رونما ہوتے ہیں باحیثیت قوم اس پر افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے۔
ہماری تہذیب خواتین سے حسنِ سلوک کو ترجیح دیتی ہے، حال ہی میں (12 اکتوبر) کو جب شہر میں دفعہ 144 نافذ تھی تب کراچی پریس کلب کے سامنے ایک ’مارچ‘ کے شرکا کو روکنے کے لیے پولیس نے طاقت کا استعمال کیا۔ اس دوران خواتین سے بھی بدسلوکی کی گئی۔ ایک خاتون کو لیڈی پولیس اہلکاروں کی جانب سے زمین پر گھسیٹنے کی ویڈیو اور تصاویر وائرل ہوئیں اور سوشل میڈیا پر ہر جانب سے اس کی مذمت ہوئی۔ بعدازاں پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمٰن اور دیگر نے اس پر معذرت کی، سندھ پولیس نے ایکشن لیا اور موقع پر موجود پولیس اہلکاروں کو معطل کردیا گیا۔
یہ اپنی نوعیت کا کوئی ایک واقعہ نہیں ہے۔ ہمارے ہاں خواتین کے غیر سیاسی احتجاجی مظاہرے تواتر سے دیکھنے میں آرہے ہیں۔ ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ صنف نازک کو سڑکوں پر آنے کے لیے کیا اسباب متحرک کرتے ہیں۔ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو کنٹرول کرنے میں کیا خامیاں ہیں اور مظاہروں کے ذریعے کیا مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔
احتجاجی مظاہروں میں پیش پیش رہنے والی سماجی شعبے کی چند نمایاں خواتین، پولیس افسران اور کراچی پریس کلب کے سیکریٹری سے ڈان نیوز ڈیجیٹل نے اس ضمن میں گفتگو کی۔
’اسکول میں تھی جب پہلی بار مارچ کیا‘
ڈاکٹر بختاور جام سندھ کے معروف کمیونسٹ رہنما کامریڈ جام ساقی مرحوم کی صاحبزادی، ویمن ایکشن فورم کی رکن، شاعرہ اور سماجی کارکن بھی ہیں۔
ڈاکٹر بختاور نے کہتی ہیں، ’میں اسکول میں پڑھتی تھی جب بابا نے امن اور سیاسی شعور کے لیے سندھ اور پنجاب کے بارڈر سے کراچی تک پیدل لانگ مارچ کیا تھا، میں نے ان کا ساتھ دیا۔ نو عمری سے شروع جدوجہد اب تک جاری ہے۔ مختلف مسائل جیسے کہ کاروکاری، جرگہ سسٹم، سلمان تاثیر کا قتل اور خواتین کے مسائل کے متعلق بے شمار مظاہروں میں شرکت کی ہے۔ حالیہ رواداری مارچ کے لیے بھی میں حیدرآباد سے کراچی آئی تھی‘۔
انہوں نے کہا کہ ’احتجاجی مظاہرے میں شرکت کے لیے خواتین کو سب سے پہلے اپنے گھر سے رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواتین کا یوں سڑکوں پر آنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ میری خوش قسمتی یہ ہے کہ میں ایک کامریڈ گھرانے میں پیدا ہوئی۔ میرے والد نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ جیلوں میں، روپوشی یا احتجاج کرتے ہوئے گزارا۔ میرے گھر والوں نے مجھے کبھی نہیں روکا۔ ہماری سوسائٹی بھی ذہنی طور پر میرے جیسی خواتین کے لیے تیار ہوتی ہے کہ ان کا تو یہ خاندانی کام ہے‘۔
بختاور بتاتی ہیں کہ ’بعض اوقات ہمارے ساتھ احتجاج میں ایسی خواتین بھی شامل ہوتی ہیں جو اپنے گھر والوں کے کو بتائے بغیر آتی ہیں‘۔
اس سوال کے جواب میں کہ خواتین کے مظاہرے پر کبھی پولیس کی طاقت کا سامنا کرنا پڑا، وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے ہاں عورت کے لیے کچھ نہ کچھ رکھ رکھاؤ ہے۔ ہم جیسے عورت مارچ کرتے ہیں تو اس کے لیے ہم انتظامیہ کو پہلے سے اطلاع دیتے ہیں تو وہ لوگ سیکیورٹی کے انتظامات کرتے ہیں۔ البتہ ایک دفعہ انتہا پسندوں نے اسٹیج پر آگ لگانے کی کوشش کی تھی‘۔
وہ کہتی ہیں احتجاج کرنے والی خواتین کو اب سوشل میڈیا کے ذریعے گالیاں دینے کا رجحان بڑھ گیا ہے جس سے انہیں اور ان کے پیاروں کو تکلیف ہوتی ہے۔
مشکلات کے باوجود وہ کیا بات ہے جو احتجاجی مظاہروں کی جانب مائل کرتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر بختاور نے کہا، ’اگر ہمارے معاشرے میں کچھ غلط ہو رہا ہے اور ہم اس کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں تو اس سے ایک امید پیدا ہوتی ہے کہ کبھی نہ کبھی تو یہ نا انصافیاں ختم ہوں گی۔ ضروری نہیں کہ ہم انہیں ختم ہوتا دیکھ سکیں جیسے جو درخت لگاتا ہے وہ پھل نہیں کھاتا۔ ہم سے پہلے کئی لوگ آئے جنہوں نے اپنی پوری زندگیاں اس مقصد کے لیے وقف کردیں۔
’میں اپنے گھر کی مثال دیتی ہوں، جنرل ضیاالحق کے مارشل لا کا دور تھا، لوگوں کو گرفتار کرکے غائب کر دیا جاتا تھا۔ میرے بابا کو 10 دسمبر 1978ء کو گرفتار کیا گیا اور کئی مہینوں تک ان کی کوئی خبر نہیں تھی۔ بابا اس سے پہلے 6 یا 7 مرتبہ گرفتار ہو چکے تھے لیکن اس مرتبہ جب وہ گرفتار ہوئے تو ایک دن اخبار میں یہ خبر آئی کہ جام ساقی کو ٹارچر کر کے مار دیا گیا ہے۔
’اس وقت اس طرح کے واقعات تواتر سے رونما ہو رہے تھے۔ میری والدہ جو پہلے ہی والد کی گمشدگی سے پریشان تھیں، انہوں نے اخبارکی خبر کو سچ سمجھ لیا وہ اسی روز گھر سے پانی کا گھڑا سر پر اٹھائے کنویں پر گئیں اور اس میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی ختم کردی۔ میں اور میرا بھائی بہت چھوٹے تھے، مجھے اس وقت تو سمجھ نہیں آتی تھی کہ ماں نے کیوں جان دی لیکن اب میں جانتی ہوں کہ ہر جدوجہد قربانی مانگتی ہے‘۔
’بندوقوں کا رخ ہماری جانب تھا‘
پاکستان فشر فوک فورم کی سینئر وائس چیئرمین فاطمہ مجید کے والد عبد المجید موٹانی، ماہی گیروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم پاکستان فشر فوک کے بانیان میں شامل ہیں۔ 1988ء میں انہیں بھارتی بحری سیکورٹی ایجنسی نے گرفتار کر لیا تھا۔ چھ ماہ جیل میں رہنے کے بعد وہ دونوں ممالک میں قیدیوں کے تبادلے کے نتیجے میں رہا ہو کر پاکستان واپس آئے۔
فاطمہ بتاتی ہیں کہ جب فشر فوک فورم بنا تو وہ اس وقت میٹرک میں تھیں۔ انہوں نے پہلی مرتبہ ’ڈیپ سی فشنگ ٹرالرز‘ کے خلاف مظاہرے میں والد کے ساتھ شرکت کی۔ 2006ء تک فاطمہ بھرپور انداز میں فشر فوک کے مظاہروں میں شرکت کرنے لگیں۔ ان دنوں بدین میں ماہی گیروں نے رینجرز کی جانب سے میٹھے پانی پر ٹھیکے کے نظام کے خلاف احتجاج شروع کیا تھا۔
فاطمہ بتاتی ہیں، ’ہم کئی کئی دن کراچی پریس کلب پر بھوک ہڑتال پر بیٹھے رہتے تھے، ریلیاں نکالتے تھے۔ بدین جاکر بھی مظاہرے کیے، فورسز ہمیں روکتی تھیں لیکن کبھی مارا نہیں‘۔
وہ اپنے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ بتاتی ہیں جس میں جزیروں پر شہر بسانے کے خلاف ایک مظاہرے کے دوران سیکورٹی فورسز نے ان پر بندوقیں تانے رکھی تھیں۔
’جنرل مشرف کے دور میں‘ بنڈھار’ اور ’ڈنگی‘ جزیروں پر’ڈائمنڈ آئی لینڈ سٹی’ بنانے کا منصوبہ بنا تھا۔ ماہی گیر اس کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ عورتیں اور مرد کشتیوں کی ریلی نکالتے تھے۔ دیگر تنظیموں کے لوگ بھی ہمارا ساتھ دیتے تھے۔ اسی مہم میں، میں اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ خواتین سے بھری ہوئی لانچ کو لے کر ڈنگی جزیرے کی طرف جارہی تھی۔ سیکیورٹی فورس ہمیں اس طرف جانے سے روک رہی تھی، ان کی اسپیڈ بوٹ ہماری لانچ کے ساتھ چل رہی تھی اور انہوں نے ہم پر بندوقیں تان رکھی تھیں۔ انہوں نے ہمیںڈنگی نہیں جانے دیا لیکن ہم بنڈھار چلے گئے تھے’۔
فاطمہ یاد کرتی ہیں کہ ’ایک اور مظاہرہ جو مجھے نہیں بھولتا ہم نے 2011ء میں اپنے رہنماؤں حاجی ابوبکر اور عبد الغنی کے لیے کیا تھا جنہیں ’ککا پیرجزیرے‘ پر قبضے کے لیے شہید کردیا گیا تھا۔ ہم سندھ اسمبلی کی طرف مارچ کررہے تھے، پولیس نے ہمیں گھیر لیا۔ آنسو گیس کی گاڑیاں اور واٹر کینن تیار کھڑی تھیں لیکن ہمارے مرد اور خواتین نہیں رکے، ہمارے مظاہرے میں خواتین کثیر تعداد میں تھیں۔ اس وقت کے وزیر بابر غوری ہم سے بات کرنے کے لیے آئے لیکن خواتین انہیں پیچھے ہٹاتے ہوئے آگے بڑھ گئیں اور ہم نے سندھ اسمبلی کے سامنے بیٹھ کر قاتلوں کی گرفتاری کے لیے دھرنا دیا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں رواداری مارچ میں شرکت کے لیے کراچی پریس کلب پہنچی تھی مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے جنرل مشرف کے دور میں مظاہرین بالخصوص خواتین پر تشدد نہیں دیکھا لیکن پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں یہ دیکھنا پڑا ہے جس نے ہمیں جنرل ضیا کے دور کی یاد دلا دی ہے‘۔
فاطمہ بتاتی ہیں کہ ان کے مظاہروں میں ماہی گیر خواتین بھرپور شرکت کرتی ہیں۔ وہ اگر کسی کو اپنے ساتھ شریک ہونے کا نہ کہیں تو وہ پوچھتی ہیں کہ فاطمہ کیا تم ہم سے ناراض ہو گئی ہو؟
وہ بتاتی ہیں، ’فشر فوک فورم کی وائس چیئر پرسن طاہرہ علی شاہ (مرحومہ) مجھے صبح 11 بجے فون کرتیں کہ آج دو بجے مظاہرے کے لیے جانا ہے، میں اسی وقت چولہا بند کرکے اٹھ کھڑی ہوتی اور ہر گلی میں جاکر دروازے کھٹکا کر خواتین سے ساتھ چلنے کا کہتی تھی۔ دو بجے تک ہماری بسیں خواتین سے بھری ہوتی تھیں‘۔
فاطمہ کہتی ہیں کہ ماہی گیر عورتوں کے بے شمار مسائل ہیں، مہنگائی، غربت، بے روزگاری، گھریلو تشدد اور دیگر، خواتین ان مسائل کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں تو ان کے دل کو سکون ملتا ہے۔
فاطمہ اپنے والد کے ہمراہ کراچی سے اسلام آباد تک کا لانگ مارچ یاد کرتی ہیں جب انہوں نے دریاؤں پر بند باندھنے کے خلاف احتجاج کیا اور انہیں کیٹی بندر سے جامشورو تک پیدل مارچ بھی یاد ہے جب مسلسل چلنے کی وجہ سے ان کے والد کے پاؤں سے خون رسنے لگا تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ انہیں لوگوں کے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے کا جذبہ متحرک رکھتا ہے تاکہ اگلی نسلوں کے سامنے کچھ کرنے میں ناکامی پر شرمندگی نہ ہو۔
’پہلا احتجاج بھٹو کی گرفتاری پر کیا‘
مہناز رحمٰن صحافی، ایکٹوسٹ، عورت فاؤنڈیشن کی سابق ڈائریکٹر ہیں، بتاتی ہیں کہ ’ہمارے احتجاجی مظاہرے زمانہ طالب علمی سے شروع ہوگئے۔ یہ 1968ء تھا جب میں نے کراچی یونیورسٹی میں ماسٹرز میں داخلہ لیا، ایوب خان کے خلاف طلبہ کی تحریک شروع ہوچکی تھی۔ اسی دوران ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کر لیا گیا۔ میرا کبھی پیپلز پارٹی سے تعلق نہیں رہا لیکن شعوری یا لاشعوری طور پر دل میں جبر کے خلاف مزاحمت کا جذبہ موجود تھا۔
’میں ہاسٹل میں رہتی تھی، اپنی چند دوستوں کے ساتھ مل کر ہم نے فیصلہ کیا کہ بھٹو کی گرفتاری پر احتجاج کرنا ہے۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت عروج پر تھی، اقوام متحدہ میں کشمیر پر ان کی ولولہ انگیز تقریر کے بعد لوگ ان کے گرویدہ تھے۔ ہم نے بھی ایک ایسے لیڈر کے لیے جو عوام کی، لوگوں کے جمہوری حقوق کی بات کرتا تھا، چند پوسٹرز بنا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا‘۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’یونیورسٹی میں، میں نے اکنامکس سوسائٹی کا انتخاب لڑا اور طلبہ سیاست میں فعال رہی‘۔
آج سے 5 دہائی قبل کے احتجاجی مظاہروں کے متعلق بات کرتے ہوئے مہناز نے کہا، ’میں نے عملی صحافت کا آغاز ’مساوات‘ اخبار سے کیا، 1978ء میں صحافیوں کی اخبارات پر بندشوں کی وجہ سے جنرل ضیا الحق کے خلاف تحریک چلی تو اس وقت منہاج برنا مرحوم کی زیرِقیادت ’فیڈرل یونین آف جرنلسٹز‘ کی رکن ہونے کی حیثیت میں سے دیگر ساتھیوں، نثار عثمانی اور احفاظ الرحمٰن، کے ساتھ احتجاجی تحریک میں شامل رہی۔ اس وقت صحافت میں اور یونیورسٹی میں بھی بہت کم خواتین تھیں جو کسی تنظیم میں شامل ہوتی تھیں یا مظاہروں میں شرکت کرتی تھیں‘۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ’احتجاج کرنے والی خواتین کو تب بھی ’آزاد خیال‘ مطلب برا سمجھا جاتا تھا مگر مجھے یاد ہے اس تحریک میں جتنی خواتین تھیں سب نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ہماری ساتھی شہناز احد نے دیگر کے ساتھ بھوک ہڑتال بھی کی تھی اور ان کی طبیعت خراب ہوگئی تھی‘۔
خواتین کے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ 1980ء کی دہائی میں بھرپور انداز میں شروع ہوا۔ اس وقت ویمن ایکشن فورم، عورت فاؤنڈیشن اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بے شمار مظاہرے کرتی تھیں۔
مہناز کہتی ہیں کہ ’سیاسی اور طلبہ تنظیموں کے کارکنان پر تشدد کی افسوسناک روایت 1960ء کی دہائی سے چلی آرہی ہے، خواجہ ناظم الدین کے دور میں ڈگری کورس، فیسوں میں اضافے اور دیگر تعلیمی مسائل پر احتجاج کرنے والے طلبہ پر لاٹھی چارج کے علاوہ گولی تک چلا دی گئی تھی۔ اسی طرح ایوب خان کے دور میں راولپنڈی پولی ٹیکنیک کالج کا ایک طالب علم مارا گیا تھا جس سے تحریک مزید زور پکڑ گئی تھی لیکن سماجی تنظیموں بالخصوص خواتین مظاہرین پر کبھی اس طرح تشدد نہیں کیا گیا جس طرح موجودہ دور میں نظر آتا ہے۔
’گزشتہ دنوں ہم نے پریس کلب پر جمع ہونے والے مارچ کے شرکا پر تشدد ہوتے دیکھا۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں جس کے کارکن اور رہنما خود ہمارے ساتھ مظاہروں میں شریک ہوتے تھے، انہوں نے ہی مظاہرین پر ڈنڈے برسائے‘۔
مہناز رحمٰن بتاتی ہیں کہ ’12 اکتوبر کو میں جب پریس کلب آرہی تھی تو پولیس نے بڑی گاڑیاں کھڑی کرکے سب راستے بند کیے ہوئے تھے۔ میں پیدل کلب پہنچی، اندر ہمارے دیگر ساتھی بھی موجود تھے، اتنے میں اطلاع ملی کہ پینوراما سینٹر کی طرف سے ایک ریلی آرہی ہے تو ہم بھی پریس کلب کے پچھلے دروازے کی طرف کھڑے ہوگئے۔ بسیں یہاں پہنچیں تو پولیس مظاہرین کو اترنے نہیں دے رہی تھی، دھکم پیل شروع ہوگئی اور پریس کلب کے دروازے بند کردیے گئے۔
’ہم مرکزی دروازے کی طرف چلے گئے، یہاں پولیس نے لاٹھی چارج شروع کردیا تھا۔ خواتین کو دھکیل کر پولیس وین میں لے جا رہے تھے، رومیصا نامی کارکن نے مزاحمت کی تو خواتین پولیس اسے زمین پر گھسیٹتے ہوئے لے گئیں۔ اسی دوران پولیس تشدد سے چند مظاہرین کی حالت بگڑ گئی۔ پریس کلب کے عملے نے چند سیکنڈ کے لیے گیٹ کھول دیا اور ہم ،پنہل سارئو اور ناصر منصور کو اندر لے آئے۔ دونوں کی حالت خراب تھی۔ میں نے ناصر کے سر اور چہرے پر پانی چھڑکا۔ اس نے ہمیں بتایا کہ ان کے سر پر کسی سخت چیز سے ضرب لگائی گئی تھی۔ کچھ دیر بعد دونوں معمول پر آگئے اور دیگر کارکنان کے ساتھ گرفتار ساتھیوں کی رہائی کے لیے پولیس اسٹیشن چلے گئے‘۔
مہناز موجودہ حالات کا ماضی سے موازنہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’افسوس ہے دہائیوں سے جاری پولیس کے رویے میں کوئی فرق نہیں آیا۔ وہ وہی نوآبادیاتی رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں جو انگریزوں نے ’غلاموں‘ سے نمٹنے کے لیے بنایا تھا۔ دراصل پولیس کو جدید خطوط پر اپنے ملک کے مظاہرین سے نمٹنے کی ٹریننگ ہی نہیں دی جارہی۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ’مظاہرے، احتجاجی ریلیاں جہاں ملک میں بے چینی اور غصے کا اظہار کرتی ہیں وہیں یہ رحجان بھی نظر آتا ہے کہ خواتین تحریکوں کی قیادت سنبھال رہی ہیں۔ ہمارے لیے اس میں امید کا پہلو ہے، خواتین معاملات سنبھالیں گی تو بہتری آئے گی‘۔
ایک ماہ کا بچہ بھی مظاہرے میں شریک
سجل شفیق ’منارٹی رائٹس مارچ‘ کی آرگنائزر اور سرگرم کارکن ہیں۔ ان کی والدہ پاسٹر غزالہ شفیق اقلیتی برادری، انسانی اور خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن ہیں۔ سجل بتاتی ہیں کہ وہ پہلی مرتبہ بہت چھوٹی عمر میں اس احتجاجی مظاہرے میں شریک ہوئیں تو تب ہوا تھا کہ جب ان کی والدہ پاسٹر غزالہ پر جو ہاسٹل کی پرنسپل تھیں، مبینہ طور پر بشپ کی جانب سے حملہ کروایا گیا تھا۔
سجل بتاتی ہیں کہ ’پہلی مرتبہ اپنے لیے مظاہرہ کیا تھا لیکن ہوش سنبھالا تو دوسروں کے حق کے لیے آواز اٹھانی شروع کردی۔ توہین مذہب کے الزامات پر لوگوں کے قانون ہاتھ میں لینے کے خلاف، جبری مذہب کی تبدیلی اور اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملوں کے خلاف مظاہرے کیے۔ کراچی میں کچھ عرصہ قبل جب افغان پناہ گزینوں کو اچانک نکالنا شروع کردیا تھا تو اس پر بھی احتجاج کیا۔ لاپتا افراد کے لیے مظاہرے کیے ہیں۔ جبری مذہب تبدیلی کا شکار بچیوں آرزو راجا، نیہا پرویز کے مسئلے پر ہم نے آواز اٹھائی‘۔
انہوں نے بتایا کہ وہ پہلے’عورت مارچ’ (2018ء) سے ان مظاہروں میں شرکت کرتی آرہی ہیں۔
احتجاجی مظاہروں سے کیا فرق پڑتا ہے، اس بارے میں سوال پر سجل شفیق نے جواب دیا کہ ’اکثر اوقات تو کوئی فرق نہیں پڑتا اور یہ بہت دل شکن ہوتا ہے۔ سوچتے ہیں ہم سڑکوں پر بیٹھے ہیں، نعرے لگا رہے ہیں، لوگ ہمیں برا بھلا کہہ رہے ہیں لیکن کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی چھوٹی سی کامیابی مل جاتی ہے جس سے بہت خوشی ہوتی ہے۔
’بعض اوقات نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا ان واقعات کا نوٹس لیتا ہے جیسے افغان پناہ گزین کے مسئلے پر ہم نے یہ نشان دہی کی کہ ان میں مسیحی افراد بھی شامل ہیں تو ’رائٹر‘ اور اقوامِ متحدہ کے نمائندگان نے بھی اس کا نوٹس لیا تھا۔ احسن مسیح کو سزائے موت کے خلاف ہم نے آواز اٹھائی جسے جڑانوالہ واقعے کا محرک قرار دیا گیا۔ اگرچہ اس کی سزا ختم نہیں ہوئی لیکن ہم کوئی نتیجہ سامنے نہ آنے کے باعث اس طرح کے واقعات پر خاموش ہوکر نہیں بیٹھ سکتے کیونکہ کسی کو تو ان لوگوں کے لیے آواز اٹھانی ہے جو خود اپنے حق کے لیے نہیں بول سکتے‘۔
احتجاجی مظاہرے میں شریک خواتین کو درپیش مسائل کے بارے میں بات کرتے ہوئے سجل شفیق نے مؤقف اپنایا کہ ’خواتین کو مظاہروں میں شرکت کے لیے بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے، بالخصوص جب آپ کمسن بچوں کو چھوڑ کر گھر سے نکلتی ہیں تو اس کے جذباتی اور نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ میں 80 فیصد مظاہروں میں اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر جاتی ہوں، وہ ایک ماہ کا تھا جب میں اسے گود میں اٹھائے ’عورت مارچ‘ میں شریک ہوئی۔ اب تو وہ بھی ’آزادی، آزادی‘ کے نعرے لگاتا رہتا ہے‘۔
مظاہرین سے پولیس کی بدسلوکی کے متعلق بات کرتے ہوئے سجل نے کہا، ’12 اکتوبر کے مارچ میں پولیس نے تمام حدیں پار کرلیں، خواتین کا احترام نہیں کیا گیا۔ اس سے پہلے بھی ہم پولیس کے تشدد کا سامنا کر چکے ہیں ہم نے ابھی جولائی میں ’پریا کماری‘ کی بازیابی کے لیے احتجاج کیا تھا۔ ہم تین تلوار پر بیٹھے تھے، پولیس واٹر کینن اور ڈنڈے لے آئی اور ہمیں زبردستی اٹھا دیا، حالانکہ اس وقت کوئی دفعہ 144 بھی نافذ نہیں تھی۔
’پریا کماری ایک ہندو بچی جو چار سال پہلے محرم میں ایک سبیل پر شربت پینے گئی تھی، لاپتا ہوگئی جو ابھی تک نہیں مل سکی ہے۔ اس کے لواحقین متواتر پریس کلب پر مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہمارے پُرامن احتجاج پر پولیس تشدد کے خلاف شکایات پر یہ ہوا کہ چند نچلے درجے کے اہلکاروں کو معطل کردیا گیا جیسے کہ حال میں کیا گیا ہے‘۔
مارچ کے شرکا پر تشدد کے خلاف اگرچہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے معافی مانگی لیکن اگلے روز 12 لوگوں پر ایف آئی آر درج ہوئی اور 200 نامعلوم لوگوں کو نامزد کردیا گیا۔
سجل بتاتی ہیں کہ ’ہم نے اقلیتی حقوق کے لیے مارچ کیا تو ایک تنظیم کے لوگوں نے دونوں جانب سے ہمیں گھیر لیا تھا اور کہا جارہا تھا ’آکر دکھائیں، ہم انہیں چھوڑیں گے نہیں‘۔ میری ڈیوٹی فرنٹ گیٹ پر تھی، ہم نے دیکھا ایک طرف پولیس ڈنڈے لیے کھڑی تھی اور دوسری جانب ہمیں اس تنظیم کے لوگ بلے اور ڈنڈے لیے، نعرے لگاتے ہوئے آتے دکھائی دے رہے تھے۔
’ہمیں ڈر تھا وہ کسی بھی وقت رکاوٹیں توڑتے ہوئے آجائیں گے۔ اس سے پہلے میری اور ہماری ساتھی خواتین کی تصاویر، نازیبا الفاظ اور دھمکیوں کے ساتھ سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں۔ ہمارے گھروں کے ایڈریس شائع کیے گئے۔ ہر طرح ہمیں ہراساں کیا گیا۔ ہمیں ناانصافی کے خلاف آواز اُٹھانے پر یہ قیمت چکانی پڑتی ہے‘۔
’مظاہرین بعض اوقات اپنی حدیں پار کرتے ہیں‘
لبنیٰ ٹوانہ، سندھ پولیس اور ایف آئی اے میں 30 سالہ سروس کے بعد حال ہی میں اسسٹنٹ ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس (ADIGP) کے عہدے سے ریٹائر ہوئی ہیں، کہتی ہیں کہ ’پاکستان پینل کوڈ کے مطابق کسی جرم کی پاداش میں بھی عورت کو ہتھکڑی نہیں لگائی جاسکتی اور نہ ہی عورت کو شام کے بعد کسی تھانے میں روکا جا سکتا ہے۔ مرد پولیس کو سختی سے حکم ہے کہ وہ خواتین کو نہیں چھوئیں گے‘۔
لبنیٰ ٹوانہ نے کہا، ’پُرامن احتجاج سب کا حق ہے تاہم احتجاج کرنے والے بعض اوقات خود اپنی حدیں پار کرتے ہیں یا شرپسند عناصر خواتین کو استعمال کرتے ہیں‘۔
وہ یاد کرتی ہیں کہ ’میں 1999ء میں ایس ایچ او ویمن پولیس تھی اور میری پوسٹنگ ساؤتھ میں تھی۔ یہ علاقہ چونکہ ریڈ زون ہے تو سیاسی، غیرسیاسی ہر طرح کے احتجاج ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ میڈیکل اسٹوڈنٹس کا احتجاجی مظاہرہ تھا وہ گورنر ہاؤس جانا چاہتے تھے جبکہ پولیس انہیں روکنے کا حکم تھا۔ ہم نے طلبہ کو بتا دیا کہ آپ نے فوارہ چوک سے آگے نہیں جانا ہے اور انہوں نے ہامی بھر لی۔
’انہیں پُرامن انداز میں دیکھ کر ہم بھی اطمینان سے کھڑے ہوگئے لیکن طلبہ نے پہلے سے منصوبہ بندی کر رکھی تھی، انہوں نے لیڈی ڈاکٹرز کو آگے رکھا اور سب نے اچانک گورنر ہاؤس کی جانب دوڑ لگا دی۔ اب اس صورت حال میں پولیس کو لا اینڈ آرڈر کو یقینی بنانا ہوتا ہے تو ہم نے انہیں روکا، جب لیڈی پولیس نے خواتین کو پکڑ کر روکنا چاہا تو کئی خود ہی زمین پر لیٹ گئیں اور ظاہر کرنے لگیں جیسے ان کو مارا پیٹا اور گرایا گیا ہے۔
’اسی طرح سیاسی مظاہرین میں بھی بعض اوقات خواتین، پولیس کو اُکساتی ہیں یا ان میں شامل چند شرپسند عناصر صورت حال کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ افراتفری میں پھر حالات خراب ہوجاتے ہیں۔ اس صورت میں پولیس مظاہرین پر تشدد کرتی ہے لیکن میں یہ کہوں گی کہ پولیس کی جانب سے مظاہرین پُرتشدد نہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے‘۔
خواتین پولیس کی نفری میں اضافے کی ضرورت
سینئر سپرٹینڈنٹ پولیس (ایس اسی پی) اور اسسٹنٹ انسپکٹر جنرلپولیس برائے جینڈر کرائم اینڈ ہیومن رائٹس سندھ، شہلا قریشی نے اس حوالے سے ہم سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’خواتین کے مظاہروں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ میں یہ سمجھتی ہوں کہ خواتین کی اپنے حقوق کے متعلق شعور ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں خواتین پولیو ورکرز اپنے معاوضے میں اضافے کے لیے سڑکوں پر نکل آتی ہیں، نرسز ایڈہاک ازم کے خاتمے اور ملازمت مستقل کرنے کے متعلق مظاہرے کرتی ہیں، سیاسی معاملات پر بھی خواتین کے احتجاجی مظاہرے ہوتے ہیں۔ جمہوری معاشرے میں پُرامن مظاہرے سب شہریوں کا حق ہیں۔ پولیس قانون کے مطابق مظاہرین کو کنٹرول کرتی ہے‘۔
شہلا قریشی نے کہا کہ ’12 اکتوبر کو کراچی پریس کلب کے سامنے مارچ کے شرکا کی ’مس ہینڈلنگ‘ کے متعلق اعلیٰ سطح کی انکوائری کی جارہی ہے۔ موقع پر موجود اسٹاف کو معطل بھی کردیا گیا ہے تاہم یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ مارچ کا انعقاد اس وقت کیا گیا جبکہ شہر میں دفعہ 144 نافذ تھی۔ پولیس کو اسی موقع پر مظاہرین کے ایک دوسرے گروپ کی جانب سے مارچ کے شرکا سے تصادم کا بھی خدشہ تھا۔
’میں اس موقع پر موجود نہیں تھی مگر اطلاعات کے مطابق دوسری جانب سے مظاہرین مارچ کے شرکا پر حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھ رہے تھے، لہٰذا لا اینڈ آرڈر کی بحالی کے لیے اقدام اٹھائے گئے۔ موقع پر موجود ٹاسک فورس نے فیصلہ کیا کہ انہیں کیا کرنا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ خواتین مظاہرین سے بدسلوکی، انہیں زمین پر گھسیٹنے کا عمل، پولیس ٹریننگ میں خامی کی نشان دہی نہیں کرتا؟ شہلا قریشی نے جواب دیا کہ ’مشتعل ہجوم سے نمٹنے کے لیے پولیس کی باقاعدگی سے ٹریننگ کروائی جاتی ہے۔ میں خود گارڈن ہیڈ کوارٹرز میں اس حوالے سے کئی ٹریننگز کروا چکی ہوں۔ خواتین مظاہرین کو خواتین پولیس سنبھالتی ہیں۔
’میں معذرت کے ساتھ کہوں گی کہ بعض اوقات خواتین مظاہرین اپنے حق کا غلط استعمال بھی کرتی ہیں مثلاً پولو گراؤنڈ میں خواتین ٹیچرز کے ایک مظاہرے میں تقریباً 100 سے زائد خواتین مظاہرین تھیں جبکہ میں اکیلی افسر اور میرے ساتھ، سات آٹھ خواتین پولیس ڈیوٹی پر تھیں۔ ہماری مدد کے لیے وہاں جو مرد پولیس اہلکار موجود تھے، مشتعل خواتین نے ان پر ہاتھ اٹھایا۔ ایک پولیس مین دروازے پر متعین تھا خواتین نے ان کی وردی کھینچی، انہیں دھکے دے کر دروازے سے ہٹانے کی کوشش کی‘۔
مزید بتاتی ہیں کہ ’پولیس کی جدید انداز میں مظاہرین کو کنٹرول کرنے کی تربیت کے ساتھ خواتین پولیس کی نفری میں اضافے کی ضرورت ہے۔ اس وقت مجموعی طور پر پاکستان میں خواتین پولیس کا تناسب 3 فیصد جبکہ سندھ میں 2 فیصد ہے۔ ملک میں تقریباً ساڑھے 4 لاکھ پولیس اہلکاروں میں خواتین کی تعداد 17 ہزار ہے جبکہ سندھ پولیس کی کُل ایک لاکھ 27 ہزار پولیس میں خواتین کی تعداد 4 ہزار 250 ہے‘۔
خواتین کا احتجاج زندہ معاشروں کی نشانی ہے’
شہر قائد میں واقع کراچی پریس کلب تاریخی طور پر ہر مکتب فکر کے لیے ’ہائیڈ پارک‘ کی حیثیت رکھتا ہے جہاں آزادی اظہار اور احتجاج کی آزادی حاصل ہے۔ پریس کلب کے باہر اکثر اوقات احتجاجی مظاہرے، جلسے، جلوس منعقد ہوتے رہتے ہیں جبکہ اس کے اندر ہر شعبہ زندگی کے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں پریس کلب کے باہر مظاہرین بالخصوص خواتین سے پولیس کی بدسلوکی کے مناظر عام ہوئے اس بارے میں سیکریٹری پریس کلب شعیب احمد نے ڈان نیوز ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’کچھ مظاہرے ایسے ہوتے ہیں جو پریس کلب کے باہر ہوتے ہیں لیکن تاثر یہ بن جاتا ہے کہ شاید یہ پریس کلب کے زیرِ اہتمام ہیں۔ ایسا نہیں ہے البتہ پریس کلب کے اندر کوئی پابندی نہیں، پریس کانفرنس، سمینار یا احتجاجی جلسہ، وہ کوئی بھی پارٹی یا فرد واحد کسی بھی وقت کر سکتا ہے۔
’عورت فاؤنڈیشن، ہیومن رائٹس، ایڈوکیٹس اور دیگر تنظیمیں یہاں پروگرام کرتی ہیں۔ حالیہ عرصے میں ماہ رنگ بلوچ نے مسنگ پرسنز کے حوالے سے پانچ پریس کانفرنسز کی ہیں۔ سب کو پریس کلب کے اندر بات کرنے کی پوری آزادی ہے۔ البتہ ریاست پاکستان اسلام اور پاکستان کی سالمیت کے خلاف بات نہیں کرسکتے‘۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’پریس کلب کے باہر رونما ہونے والے بعض واقعات میں جیسے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے ایک بار پریس کلب میں پریس کانفرنس کی کال دی لیکن ان کو گیٹ کے باہر سے ہی گرفتار کر لیا گیا۔ اسی طرح ماہ رنگ کے حوالے سے بلوچستان کے لوگوں کا احتجاج تھا تو ان کو بھی گیٹ کے باہر سے پولیس نے گرفتار کر لیا۔
’اس میں عموماً ہم سے سوال کیا جاتا ہے کہ ہمارا اس میں کیا کردار ہے تو ہم بتاتے ہیں کہ پریس کلب کا جو مینڈیٹ اس کی حدود تکا محدود ہے۔ پریس کلب کے اندر ہم فورسز کو آنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں، سخت ترین آمرانہ دور میں بھی پریس کلب میں کسی باوردی افسر یا حکمران کو آنے کی اجازت نہیں دی گئی اور آج تک ہم اسی روایت پر کار بند ہیں‘۔
پریس کلب کے باہر مظاہرین بالخصوص خواتین پر پولیس تشدد کے متعلق بات کرتے ہوئے شعیب احمد نے کہا کہ ’عالمی یوم خواتین‘ پر’عورت مارچ’ سمیت تقریباً ایک درجن سے زائد پروگرام پریس کلب پر ہوتے ہیں ان میں ہمیں کوئی تشدد نظر نہیں آتا۔ میں سمجھتا ہوں مظاہرین پر تشدد اگر ہوتا ہے تو اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پریس کلب ریڈ زون میں واقع ہے، اس سے کچھ ہی دور گورنر ہاؤس، سندھ اسمبلی اور وزیرِ اعلیٰ ہاؤس ہیں۔ جب بھی کوئی وی آئی پی موومنٹ ہوتی ہے تو یہاں دفعہ 144 نافذ کر دی جاتی ہے۔ دفعہ کی خلاف ورزی کرنے پر پولیس لوگوں کو طاقت کے بل پر روکتی ہے اور اس میں مظاہرین پر تشدد کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔
’میں نہیں سمجھتا کہ انتظامیہ خواتین کو خصوصی طور پر نشانہ بناتی ہے البتہ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں کہ جس بے دردی سے انتطامیہ مظاہرین کو ہینڈل کرتی ہے۔ یہ مناظر جب میڈیا خاص طور پر سوشل میڈیا پر نظر آتے ہیں تو حکومت کے ہامی بھی مخالف ہو جاتے ہیں‘۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’پولیس کا ایک روایتی انداز ہے۔ 30 سے 40 سال پہلے جس طرح مظاہرے قابو میں کیے جاتے تھے، آج 2024ء میں بھی اسی انداز میں سب کو پکڑ پکڑ، ڈنڈے مارے جاتے ہیں۔ کپڑے پھاڑے جاتے ہیں اور مظاہرین کو زمین پر گھسیٹا جاتا ہے۔ حکومت اور پولیس خود اپنا تماشہ بناتے ہیں اور بعدازاں روایتی طور پر چند اہلکاروں کو قربانی کا بکرا بنا کر معطل کر دیا جاتا ہے، کچھ بیانات جاری ہو جاتے ہیں کہ‘مس ہینڈلنگ’ ہوگئی۔ پھر کچھ عرصے کے بعد وہی ریت دہرائی جاتی ہے’۔
شعیب احمد نے تبصرہ کیا کہ ’ہماری پولیس کو یہ سیکھنے کی اشد ضرورت ہے کہ مظاہرین کو کس طرح تہذیب کے ساتھ، اپنی روایات کا لحاظ رکھتے ہوئے قابو میں کرنا ہے‘۔
احتجاجی مظاہروں میں خواتین کے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے حوالے سے انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ’مجموعی طور پر ہم دنیا بھر میں خواتین کو احتجاجی تحریکوں میں فعال دیکھ رہے ہیں، مغرب میں خواتین اس طرح کی سرگرمیوں میں ہمیشہ آگے آگے رہی ہیں لیکن وقت کے ساتھ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ ہماری اسٹوڈنٹس پولیٹکس ہوں، ینگ ڈاکٹرز یا وکلا برادری کے مسائل، خواتین احتجاجی مظاہروں میں پیش پیش ہوتی ہیں۔
’اسی طرح سیاسی جماعتوں کی بات کریں تو دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح پی ٹی آئی کے 4 یا 5 سالہ احتجاجی دور میں بھی خواتین آگے رہی ہیں۔ اسی طرح مذہبی جماعتوں میں جماعت اسلامی کی خواتین، بین الاقوامی طور پر فلسطین و کشمیر کا مسئلہ ہو حجاب ڈے یا مہنگائی جیسے عوامی مسائل بھرپور انداز میں احتجاج کرتی ہیں جبکہ مذہبی جماعتوں کے دھرنوں میں بھی بچیاں اور خواتین سڑکوں پر بیٹھ کر احتجاج کرتی ہیں۔
مظاہروں میں خواتین کی شرکت کے حوالے سے شعیب احمد نے مؤقف اپنایا کہ ’میرے خیال میں یہ خوش آئند ہے کیونکہ مشرقی معاشروں کی خواتین کے متعلق یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ گھریلو ہوتی ہیں اور ان کا سیاست یا معاشرے کی اجتماعی بہتری کے لیے آواز اُٹھانے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ خواتین مظاہرے کرکے یہ تاثر غلط ثابت کررہی ہیں۔ حال ہی میں بنگلہ دیش کی مثال ہم نے دیکھی کہ جہاں طلبہ تحریک میں خواتین ہر مظاہروں میں پیش پیش تھیں۔
’میرے خیال میں خواتین اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے ذریعے بہت مؤثر انداز میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہی ہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارا معاشرہ ابھی مردہ نہیں ہوا، اس میں ابھی جان باقی ہے‘۔
غزالہ فصیح دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور بےنظیر بھٹو سمیت پاکستان کی کئی نامور شخصیات کے انٹرویو کرچکی ہیں۔ آپ پاک۔ یو ایس جرنلسٹ ایکسچینج پروگرام 2014ء کی فیلو رہی ہیں۔ آپ نے ایک کتاب Birds without wings کو 'پر کٹے پرندے' کے عنوان سے اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔