توسیع دینا جنرل ایوب خان کے دور سے شروع ہوا، ہم نے اسے فارمولائز کر دیا، خواجہ آصف
وفاق وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ توسیع دینے کا عمل جنرل ایوب خان کے دور سے شروع ہوا، ہم نے اسے فارمولائز کر دیا ہے۔
نجی ٹی وی چینل جیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تمام اداروں میں دیکھ لیں، چاہے وہ الیکشن کمیشن ہے، سینیٹ 6 سال کی ہے، قومی اسمبلی 5 سال کی ہے، جتنے بھی ادارے ہیں، قانون سازی میں ہم آہنگی دی گئی ہے، جس طرح ماضی میں ہوتا رہا ہے کہ لوگ اپنے آپ کو توسیع دیتے رہے ہیں، ایک جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹنیشن کے علاوہ کوئی پارلیمان نے نہیں دی تھی۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ قانون سازی کے ذریعے اس کی وضاحت کر دی گئی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ اپوزیشن کو پتا تھا، دوسرا جب آپ نے مخالفت برائے مخالفت کرنی ہوتی ہے تو آپ پہلے بتائیں یا بعد میں بتائیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
وزیر دفاع نے کہا کہ ہم نے جو آج کیا ہے، توسیع دینا جنرل ایوب خان کے دور سے شروع ہوا، اس چیز کو فارمولائز کیا ہے کہ ہم نے ٹینیور بڑھا دیا۔
واضح رہے کہ آج (4 نومبر) قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت 5 سال اور سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 34 جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی تعداد 9 سے بڑھا کر 12 کرنے کے حوالے سے ترمیمی بل منظور کرلیے۔
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی جانب سے ایوان میں پیش کردہ سروسز چیفس کی مدت ملازمت بڑھانے کے بل ایوان بالا نے منظور کر لیا۔
پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں مزید ترمیم، پاکستان نیول ایکٹ 1961 میں مزید ترمیم اور پاکستان ایئر فورس ایکٹ 1953 میں ترمیم کا بل بھی منظور کر لیا گیا، قانون سازی سے سروسز چیف کی مدت ملازمت 3 سے بڑھ کر 5 سال ہوگی۔
سینیٹ سے منظورشدہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے متن کے مطابق آرمی چیف کی مدت ملازمت 5 سال ہوگی، جنرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر اور سروس کی حد کا اطلاق آرمی چیف پر نہیں ہوگا، اس کا اطلاق آرمی چیف کی تقرری کی مدت، دوبارہ تقرری یا توسیع پرنہیں ہوگا۔
اپنی مدت میں آرمی چیف بطور پاکستان آرمی کے جنرل کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہیں گے۔