لائف اسٹائل

فاطمہ ثنا شیخ کا مرگی میں مبتلا ہونے کا انکشاف

فلم 'دنگل' کی شوٹنگ کے دوران 'مرگی' کی بیماری ہوئی، ابتدائی طور پر میں نے بیماری کو نہ صرف تسلیم کرنے سے انکار کیا بلکہ ادویات بھی استعمال نہیں کیں، اداکارہ

مقبول بولی وڈ اداکارہ فاطمہ ثنا شیخ نے اعتراف کیا ہے کہ وہ 2016 سے نیورو بیماری ’مرگی‘ میں مبتلا ہیں اور ابتدائی طور پر انہوں نے بیماری کو تسلیم کرنے اور اس کی ادویات لینے سے بھی انکار کیا تھا۔

فاطمہ ثنا شیخ نے حال ہی میں فلم فیئر کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ 2016 میں ریلیز ہونے والی مقبول فلم ’دنگل‘ کی شوٹنگ کے دوران انہیں ’مرگی‘ کی بیماری ہوئی اور ابتدائی طور پر انہوں نے یہ تسلیم کرنے سے ہی انکار کیا کہ انہیں اس طرح کی کوئی بیماری ہے۔

اداکارہ نے بتایا کہ انہوں نے نہ صرف بیماری سے انکار کیا بلکہ ڈاکٹروں کی جانب سے دی گئی ادویات لینے سے بھی گریز کیا، جس سے ان کی بیماری شدید ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ چوں کہ مرگی جیسی بیماری کے حوالے سے بہت ساری توہمات پائی جاتی ہیں اور یہ دماغی عارضہ بھی ہے، اس لیے انہوں نے نہ صرف اس بیماری کو تسلیم کرنے سے انکار کیا بلکہ اس کا علاج کروانے سے بھی گریز کیا۔

فاطمہ ثنا شیخ کے مطابق بطور اداکارہ انہوں نے مذکورہ بیماری کو چھپانے کی کوشش کی لیکن ان کی بیماری بڑھتی چلی گئی اور انہیں زیادہ بے ہوشی کے دورے زیادہ پڑنے لگے۔

انہوں نے بتایا کہ بعض مرتبہ انہیں ہفتے میں دو بار بھی بے ہوشی کے دورے پڑنے لگے اور زیادہ لائٹوں سے ان کی بیماری میں شدت ہوتی تھی، ان کے بے ہوش ہونے کے امکانات بڑھ جاتے تھے، اس لیے انہوں نے شوٹنگز میں جانے سمیت دیگر تقریبات میں جانا بھی کم کردیا تھا۔

اداکارہ نے بتایا کہ اب انہوں نے اپنی بیماری کو تسلیم کرلیا، وہ اب ہر جگہ اس پر کھل کربات کرتی ہیں، انہیں مرگی جیسی بیماری میں مبتلا ہونے میں کوئی شرمندگی نہیں۔

فاطمہ ثنا شیخ نے کہا کہ مرگی کے دورے پڑنے کے بعد کچھ وقت تک ان کی یادداشت چلی جاتی تھی اور ہوش میں آنے کے بعد وہ کسی کو بھی پہچان نہیں پاتی تھی، انہیں سمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ پہلے کہاں تھی اور اب کہاں ہیں؟

اداکارہ کے مطابق مرگی کے حوالے سے نہ صرف چھوٹے شہروں اور دیہات بلکہ بڑے شہروں میں غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، لوگ ایسی بیماری میں مبتلا شخص پر جنات کے سائے سمیت دوسری باتیں کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مرگی کے مریض کے بے ہوش ہونے کے بعد لوگ جوتے، لوہے کی چیزیں، لکڑیاں اور دیگر عجیب عجیب چیزیں بے ہوش شخص کے ہاتھ میں تھمانے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ ایسے ہی بے ہوش شخص کو ہوش آئے گا۔

فاطمہ ثنا شیخ کے مطابق انہیں بہت زیادہ دیر تک اور شدید بے ہوشی کے دورے نہیں پڑتے اور اب وہ باقائدگی سے مرگی کی ادویات استعمال کرتی ہیں۔

خیال رہے کہ دماغی اعصاب کی بیماری مرگی (Epilepsy) ایک ایسا مرض ہے جس میں مریض کو بے ہوشی کے دورے پڑتے ہیں، یہ بیماری یا تو موروثی ہوتی ہے یا پھر کسی واقعے کے بعد لاحق ہوتی ہے۔

یہ دماغی بیماری ہوتی ہے، بے ہوشی کے دورے کے بعد مریض کی یادداشت کئی منٹوں تک چلی جاتی ہے تاہم وہ آہستہ آہستہ واپس آنے لگتی ہے۔

مرگی کے مریض کو اس بات کا پتا نہیں چلتا کہ اسے کب بے ہوشی کا دورہ آنے والا ہے، پاکستان میں بھی ہزاروں افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔

مرگی کا مرض زیادہ تر کم عمری میں ہوتا ہے اور جوں جوں عمر بڑھتی جاتی ہے، اچھی خوراک، مناسب علاج اور بہتر سوچ کے ذریعے اس مرض کو ختم کیا جاسکتا ہے تاہم کچھ مریضوں کو یہ مرض عمر بھر لاحق رہتا ہے۔

دنیا میں ہر 100 میں سے ایک فرد مرگی کا شکار

جادو یا آسیب نہیں، مرگی ایک قابل علاج مرض ہے!

نشے سے مرگی کا علاج ممکن