کاروبار

کیا مہنگی نیو انرجی وہیکلز واقعی ایندھن کی درآمدات میں کمی کا موجب ثابت ہوں گی؟

صنعت کاروں ، بیورو کریٹس، زمینداروں اور کاشتکاروں کے لیے پیسہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں جبکہ پٹرول اور ڈیزل سے چلنی والی گاڑیوں سے کوئی پیسہ بچانا ان کی ترجیح نہیں، مشہود علی خان

پرانے اور نئے کار سازوں کی جانب سے پے در پے مہنگی ہائبرڈ الیکٹرک وہیکلز ( ایچ ای ویز) اور الیکٹرک وہیکلز ( ای ویز) متعارف کرائے جانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک مشکل معاشی حالات سے نکل آیا ہے اور معیار زندگی بہتر ہوا ہے تاہم آٹو مارکیٹ کی حرکیات یکسر مختلف ہیں۔

حکومت بھی طلب کے حوالے سے کوئی جائزہ لیے بغیر شور مچا رہی ہے کہ نئی انرجی وہیکلز ( این ای ویز) کو متعارف کرانے پٹرول اور ڈیزل کی درآمد میں کمی واقع ہوگی۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق مختلف خصوصیات کی حامل یہ جدید اور خوبصورت ایچ ای ویز اور ای ویز کم یا درمیانی آمدن والی بڑی آباد کے بجائے صرف طبقہ اشرایہ کے لیے درآمد یا مقامی سطح پر اسمبل کی جارہی ہیں۔

طبقہ امرا ایک یا دو سال میں گاڑیاں تبدیل کرلیتا ہے، ان میں بیشتر افراد پہلے ہی پٹرول اور ڈیزل پر چلنے والی مہنگی کاروں اور اسپورٹس یوٹیلٹی وہیکلز (ایس یو ویز) جیسا کہ ٹویوٹا فارچیونر، ٹویوٹا کرولا، ہنڈا سوک، ٹویوٹا ریوو، کیا اسپورٹیج، ہنڈائی ٹوساں، ایم جی اور چنگان اوشان ، ہنڈا ایچ آر وی، ہنڈائی ایلانٹرا اور ہنڈائی سوناٹا اور دیگر کے مالک ہیں۔

ایسے ترغیب آمیز فیصلوں کے نتیجے میں طبقہ اشرافیہ مہنگی ایچ ای ویز اور ای ویز کی خریداری کے لیے مزید پرجوش ہوگا، آٹس پارٹس کے تیار و برآمد کنندہ اور گاڑیوں کی صنعت کے ماہر مشہود علی خان کہتے ہیں صنعت و تجارت کے بڑے ناموں ، بیورو کریٹس، زمینداروں اور کاشت کاروں کے لیے پیسہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے اور پٹرول اور ڈیزل سے چلنی والی گاڑیوں سے کوئی پیسہ بچانا ان کی ترجیح نہیں ہے اور وہ نئی ایچ ای ویز اور ای ویز کی خریداری سے بھی نہیں ہچکچائیں گے، انہوں نے کہاکہ ہنڈا سوک اور ایس یو ویز جیسی مہنگی کاروں کے خریدار برقی گاڑیوں پر منتقل ہوجائیں گے۔

تاہم ہوسکتا ہے کہ روایتی ایندھن سے چلنی والی ڈبل کیبن گاڑیوں کے خریدار ای ویز اور ایچ ای ویز کو نظرانداز کریں کیونکہ ان کے ہاں پچھلے حصوں میں دو اور تین گارڈز کے ساتھ گھومنے کا رواج ہے۔

مشہود علی خان نے مزیدکہا کہ پیسوں کا کوئی مسئلہ نہ ہونے کے باعث وہ این ای ویز کو دوسری ترجیح کے طور پر خرید سکتے ہیں۔

پاکستان میں نئی اور پرانی (جاپانی، کورین اور چینی )کمپنیوں کی ڈبل کیبن گاڑیوں، ایس یو ویز اور دیگر لگژری گاڑیوں کی مارکیٹ کا مجموعی سالانہ حجم 25 ہزار سے 35 ہزار یونٹ ہے، ای ویز اور ایچ ای ویز کے نئے خریدار انہی مجموعوں میں سے سامنے آئیں گے۔

انہوں نے کہا کہ’ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ای ویز اور ایچ ای ویز کی اتنی محدود فروخت کس حد تک پٹرول اور ڈیزل کے درآمدی بل میں کمی کا موجب ثابت ہوگی’۔

پاکستان اور بھارت میں گاڑیوں کی قیمتوں کا موازنہ

جب ان سے پوچھا گیا کہ بھارت میں ایندھن پر چلنے والی گاڑیوں سمیت ای ویز اور ایچ ای ویز سستی کیوں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی پہلی ترجیح بھارت ہے کیونکہ وہاں حکومت نے مقامی ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے لوکلائزیشن کو بڑھانے کی پالیسی پر واضح توجہ مرکوز کررکھی ہے اور گاڑیوں کی سالانہ فروخت 40لاکھ یونٹس سے بڑھ چکی ہے۔

دونوں روایتی حریفوں کے درمیان ٹیکسز، ڈیوٹیز اور شرح تبالہ میں بھی واضح فرق پایا جاتا ہے، سوسائٹی آف انڈین آٹو موبائل ایسوسی ایشن (سیام) کی ویب سائٹ کے مطابق بھارت میں ای ویز پر جنرل سیلز ٹیکس ( جی ایس ٹی) 5 فیصد ہے جبکہ پٹرول، سی این جی یا ایل پی جی پر چلنے والی 1200 سی سی سے 1500 سی سی کی گاڑیوں کے جی ایس ٹی 28 فیصد جبکہ کمپینسیشن سیس ایک سے 20 فیصد ہے جبکہ ہائی برڈ گاڑیوں پر جی ایس ٹی کی شرح 28 فیصد ہے۔

مقامی اسمبلرز کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں گاڑیوں پر ٹیکسز اور ڈیوٹیز کی شرح 40 فیصد سے زائد ہے ، گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی اور فروخت میں اضافے کے لیے قیمتین نیچے لانے کی ضرورت ہے۔ْ

پاکستان میں انٹربینک مارکیٹ میں ایک ڈالر 278 روپے کے مساوی ہے جبکہ انڈیا میں شرح تبادلہ 84 روپے فی ڈالر ہے، پاکستان میں ایچ ای ویز اور ای ویز کی قیمتیں 83 لاکھ روپے سے 2 کروڑ 35 لاکھ روپے کے درمیان ہے۔

سیام کے مطابق بھارت مین ایچ ای ویز اور ای ویز کی قیمتیں پاکستان سے کم ہیں، مثال کے طور پر بھارت میں ہنڈائی آئیونک 5 ای وی ماڈل کی قیمت 46 لاکھ 50 ہزار روپے جبکہ ہنڈا سٹی ایچ ای وی کی قیمت 20 لاکھ 55 ہزار روپے ہے، بھارت میں ایم جی کومٹ ای وی اور زیڈ ایس ای وی بالترتیب 69لاکھ90 ہزار اور 18 لاکھ 99 ہزار بھارتی روپے میں دستیاب ہیں جبکہ بی ایم ڈبلیو کی برقی گاڑیوں کی قیمت 13 لاکھ 95 ہزار روپے سے 20 لاکھ 55 ہزار روپے کے درمیان ہے۔

روایتی ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کے زمرے میں 1200 سی سی کی سوزوکی سوئفٹ ( زیڈ سیریز انجن اور 24.8 کلو میٹر فی لیٹر مائلیج) کے ساتھ بھارت میں 6 لاکھ 49 ہزار سے 7 لاکھ 56 ہزار 500 روپے میں فروخت ہورہی ہے جبکہ ہزار سی سی کی سوزوکی آلٹو کا ’کے10‘ انجن 24 کلومیٹر فی لیٹر مائلیج کا حامل ہے۔

پاکستان میں 660 سی سی سے 1500 سی سی کی مقامی سطح پر تیار ہونے والی گاڑیوں کی قیمت 22 لاکھ 51 ہزار سے 98 لاکھ 99 ہزار روپے کے درمیان ہے جبکہ 1400 سی سی سے کم کی گاڑیوں پر جی ایس ٹی کی شرح 18 فیصد اور 1400 سی سی سے اوپر کی گاڑیوں پر جی ایس ٹی کی شرح 25 فیصد ہے۔