غیر قانونی مواد کی وجہ سے 13 لاکھ یو آر ایل بلاک کیے گئے، پی ٹی اے کا انکشاف
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے دعویٰ کیا ہے کہ 19 جولائی 2024 تک اسلام مخالف، غیر مہذب اور غیر اخلاقی مواد کی وجہ سے تقریبا 13 لاکھ یونیفارم ریسورس لوکیٹرز (یو آر ایل) بلاک کیے گئے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ٹیلی کام ریگولیٹر نے دعویٰ کیا کہ اس کے ویب مانیٹرنگ سسٹم نے تقریبا 13 لاکھ 80 ہزار یو آر ایل کا جائزہ لینے کے بعد ان میں سے 93.84 فیصد (13 لاکھ 30 ہزار) کو بلاک کیا۔
یہ رپورٹ پشاور ہائی کورٹ میں ایک درخواست کے طور پر شیئر کی گئی تھی جس میں ملک میں ٹک ٹاک پر مکمل پابندی کا مطالبہ کیا گیا تھا، رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پی ٹی اے مقبول ویڈیو شیئرنگ موبائل ایپ پر ’توہین آمیز اور نازیبا‘ مواد اپ لوڈ کرنے کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔
پی ٹی اے کے وکیل جہانزیب محسود نے جسٹس اعجاز انور اور جسٹس سید ارشد علی پر مشتمل بینچ کو بتایا کہ انہوں نے پی ٹی اے کی جانب سے اپنے سابقہ حکم کے مطابق جامع رپورٹ پیش کی ہے۔
درخواست میں وکیل عمران خان نے عدالت سے استدعا کی کہ پی ٹی اے، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور وزارت اطلاعات سمیت مدعا علیہان کو ہدایت کی جائے کہ پاکستان میں ٹک ٹاک پر مستقل پابندی عائد کی جائے کیونکہ ایپ نے ’کمیونٹی گائیڈ لائنز کی مسلسل خلاف ورزی‘ اور آئین، الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے ایکٹ (پیکا) کی خلاف ورزی کی ہے۔
بنچ نے درخواست گزار کے وکیل کے دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے درخواست کی سماعت ملتوی کردی۔
21 صفحات پر مشتمل رپورٹ کے مطابق پی ٹی اے نے ’غیر اخلاقی‘ کیٹیگری میں 10 لاکھ 30 ہزار یو آر ایلز کا جائزہ لیا اور ان میں سے 10 لاکھ 20 ہزار کوبلاک کیا، ’اسلام مخالف مواد‘ کیٹیگری میں ایک لاکھ 15 ہزار 401 یو آر ایلز کا جائزہ لینے کے بعد 96 ہزار 622 کو بلاک کیا، ’پاکستان کی سلامتی اور دفاع کے خلاف‘ کیٹیگری میں ایک لاکھ 25 ہزار 134 یو آر ایلز پر کارروائی کرنے کے بعد 91 ہزار 889 کو بلاک کیا۔
دیگر زمروں میں توہین عدالت کے الزام میں 7 ہزار 152، ہتک عزت کے الزام میں 10 ہزار 929، پراکسی کے لیے 10 ہزار 250، فرقہ وارانہ اور نفرت انگیز تقاریر کے لیے 53 ہزار 915 اور دیگر وجوہات کی بنا پر ایک ہزار 791 یو آر ایلز بلاک کیے گئے۔
پی ٹی اے نے کہا کہ اس نے تقریبا 13 لاکھ 80 ہزار یو آر ایل کا ڈیٹا بیس برقرار رکھا ہے ، جس میں تمام رپورٹ شدہ یو آر ایل کے لیے تازہ ترین بلاکنگ اسٹیٹس موجود ہے۔
اس نے سوشل میڈیا ایپس اور سائٹس کا بھی بریک ڈاؤن دیا جن کے یو آر ایل بلاک کردیے گئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ 71 ہزار 744 فیس بک یو آر ایل میں سے ایک لاکھ 47 ہزار 569، ایک لاکھ 28 ہزار 626 ٹک ٹاک یو آر ایل میں سے ایک لاکھ 25 ہزار 600، جب کہ 92 ہزار 945 ٹوئٹر (ایکس) یو آر ایل میں سے 53 ہزار 872، یوٹیوب کے 61 ہزار 719 میں سے 53 ہزار 162، اور 26 ہزار 357 انسٹاگرام یو آر ایل بلاک کیے جا چکے ہیں۔
اس کے علاوہ اس نے دیگر ایپس اور ویب سائٹس پر 8 لاکھ 94 ہزار 257 یو آر ایل پر کارروائی کی ہے اور ان میں سے 8 لاکھ 88 ہزار 177 کو بلاک کردیا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پی ٹی اے نے سال 2020 سے اب تک ٹک ٹاک پلیٹ فارم نے ’غیر اخلاقی اور اسلام مخالف‘ کیٹیگریز سے متعلق ایک لاکھ 13 ہزار 133 کے قریب مواد کو بلاک کیا ہے۔
رواں سال ٹک ٹاک نے 25 ہزار 267 مشتبہ مواد میں سے 24 ہزار 800 کو بلاک کیا جن میں 23 ہزار 407 غیر اخلاقی اور نازیبا مواد اور ایک ہزار 393 اسلام مخالف پوسٹس شامل ہیں۔
ریگولیٹر نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس نے سوشل میڈیا ، خاص طور پر ٹک ٹاک پر ’توہین آمیز اور غیر اخلاقی مواد‘ کے بارے میں عوام میں بیداری پیدا کرنے کے لیے ہائی کورٹ کے احکامات کے مطابق متعدد اقدامات اٹھائے ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ٹک ٹاک انتظامیہ کو ہائی کورٹ کے احکامات سے آگاہ کرنے کے علاوہ 3 جولائی 2024 کو اسے ایک باضابطہ خط بھی بھیجا، جس میں اسے پلیٹ فارم پر ’توہین آمیز اور غیر اخلاقی اور غیر مہذب نوعیت کے قابل اعتراض مواد‘ کی موجودگی کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے اقدامات کے ذریعے ایسے مواد کی جلد نشاندہی اور ہٹانے کے لیے ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں ٹک ٹاک کے صارفین کی تعداد 5 کروڑ 44 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس پلیٹ فارم کا استعمال ’اسلام مخالف، فحش، غیر مہذب، فرقہ وارانہ اور توہین آمیز مواد‘ کو پھیلانے کے لئے کیا گیا تھا اور آئین، پیکا کے ذریعہ بیان کردہ پیرامیٹرز کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔