پاکستان

کیا ٹیکس اہداف کے حصول میں ناکامی پر منی بجٹ ناگزیر ہوگیا؟

رواں ماہ کے لیے طے شدہ آئی ایم ایف کا جائزہ تعین کرے گا کہ پاکستان کس حد تک اپنے وعدوں پر ثابت قدم ہے اور قرض پروگرام کا مستقبل کیا ہوگا؟ تجزیہ

عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) پاکستان کی معاشی پیش رفت کا جائزہ لینے کی تیاری کررہا ہے جس میں 7 ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت جولائی تا ستمبر کی پہلی سہ ماہی کے اہداف کے حصول کے لیے ملک کی کارکردگی پر توجہ دی جائے گی۔

رواں ماہ کے لیے طے شدہ یہ جائزہ تعین کرے گا کہ پاکستان کس حد تک اپنے وعدوں پر ثابت قدم ہے اور قرض پروگرام کا مستقبل کیا ہوگا۔

ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق آزاد ماہرین اقتصادیات نے ریونیو اہداف سمیت کچھ کلیدی اہداف کی تکمیل میں ناکامی پر مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، جس کے باعث ان خدشات میں اضافہ ہوا ہے کہ آئی ایم ایف اکتوبر تا دسمبر کی موجودہ سہ ماہی کے لیے کچھ مزید اور ممکنہ طور پر غیرمقبول اقدامات تجویز کرسکتا ہے۔

توسیعی فنڈ سہولت کے آئندہ جائزے کی ایک قابل ذکر خصوصیت قومی مالیاتی معاہدے ( این ایف پی) سے اسے ہم آہنگ کیا جانا بھی ہے جس میں صوبوں کی اس طرح شمولیت پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی، این ایف پی صوبوں کے لیے ٹیکس آمدن میں اضافے کے لیے ایسے اہداف مقرر کرنا چاہتا ہے جن کے ذریعے وہ ناصرف اپنے اخراجات پورے کرسکیں بلکہ تعلیم و صحت کے شعبوں پر اخراجات میں اضافہ بھی کرسکیں، وفاق کے قابل تقسیم پول سے قابل ذکر حصہ وصول کرنے والے سندھ اور پنجاب جیسے صوبوں کو اپنی محصولات میں اضافے کےلیے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

وزارت خزانہ کے حکام کو آئی ایم ایف کے ساتھ طے کردہ بلند اہداف پر پریشان ہونا چاہیے، ایف بی آر کی وصولی، بڑی صنعتوں اور درآمدات کے حجم جیسے کلیدی اہداف حاصل نہیں کیے جاسکے۔

این ایف پی کے بنیادی مقصد میں شامل مخصوص اخراجات کی صوبوں کو منتقلی میں ناکامی نے خدشات میں اضافہ کیا ہے، سوال موجود ہے کہ کیا حکومت آئی ایم ایف سے چھوٹ حاصل کرپائے گی یا منی بجٹ متعارف کرائے گی یا ریونیو بڑھانے کے لیے اضافی اقدامات اٹھائے گی تاکہ ان خلا کو پُر کیا جاسکے۔

سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل معاشی اہداف بالخصوص ایف بی آر کے آمدنی کے اہداف کو غیر حقیقی قرار دیتے ہیں، ممکنہ آمدنی میں کمی کی وجہ افراط زر میں کمی ہے، جس کی رفتار سنگل ہندسوں پر آ گئی ہے، انہوں نے سوال اٹھایا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران مہنگائی میں کمی کا اندازہ کیوں نہیں لگایا گیا، گو کہ ان کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف مہنگائی میں کمی کا ذمہ دار ہوسکتا ہے تاہم انہوں نے متنبہ کیا کہ آئی ایم ایف درآمدات میں سست روی کی جانچ کرسکتا ہے۔

این ایف پی سے متعلق مختلف اقدامات کے نفاذ میں حکومت کی ناکامی آئی ایم ایف کے جائزے کا ایک اہم عنصر ہوسکتا ہے، مفتاح اسمٰعیل نے یاد دلایا کہ حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی تھی کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی)، کھاد پر چھوٹ اور پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت صوبائی ترقیاتی منصوبے صوبوں کو منتقل کیے جائیں گے، ان میں سے کوئی بھی ہدف حاصل نہیں کیا جاسکا، جو جائزے میں تفصیل سے زیر بحث آئیں گے۔

آئی ایم ایف 18ویں پر عمل درآمد کا پرزور حامی رہا ہے اور این ایف پی کو صوبوں اور وفاق کے درمیان مالی توازن کے راستے کے طور پر دیکھتا ہے کیونکہ نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) میں تبدیلی سیاسی طور پر ناممکن ہے۔

منتقلی کے عمل کے دوران صوبوں نے وفاقی بجٹ میں تعاون کے لیے اضافی آمدن پر اتفاق کیا تھا جبکہ سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان پہلی سہ ماہی کے اضافی اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب رہے تاہم پنجاب کو 160 ارب روپے کا خسارہ ہے اور جائزے میں اس کی جانچ پڑتال کا امکان ہے۔

30 اکتوبر زرعی انکم ٹیکس کے حوالے سے قانون سازی این ایف پی کا ایک بنیادی ہدف تھا تاہم کسی صوبے نے اب تک اس حوالے سے کون قانون منظور نہیں کیا ہے۔

آئی ایم ایف نے تاجروں، ڈیولپرز اور ریئل اسٹیٹ سیکٹر پر زیادہ ٹیکسز کا مطالبہ بھی کیا ہے تاہم ایف بی آر جس نے رواں مالی تاجروں سے 50 ارب جمع کرنے پر اتفاق کیا تھا تاحال ان پر ٹیکس کے نفاذ میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے، سابق مشیر معاشیات ڈاکٹر اشفاق ایچ خان توقع کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف پہلے 4 ماہ میں 190 ارب روپے کے ریونیو شارٹ فال کو پورا کرنے کے لیے مزید ٹیکس اقدامات کا مطالبہ کر سکتا ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ پاکستانی حکام کو افراط زر میں کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیکسوں کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے آئی ایف ایم کے ساتھ موثر انداز میں مذاکرات کرنے چاہئیں، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ یہ آئی ایم ایف کے شراکت داروں کی حمایت پر منحصر ہے۔

ڈاکٹر اشفاق نے ٹیکس حکام کی انتہائی بلند اہداف کے حصول کی صلاحیت پر سوال اٹھاتے ہوئے زور دیا کہ مزید ٹیکس اقدامات کے نفاذ کے بغیر آئی ایم ایف کا جائزہ مکمل نہیں ہوگا، تاہم وزارت خزانہ نے مرکزی بینک کی آمدنی اور پیٹرولیم لیوی کی بدولت پہلی سہ ماہی کے مالی اضافے سے آگاہ کیا ہے جبکہ ایف بی آر اقتصادی اشاریوں میں تبدیلیوں کی بنیاد پر اپنی آمدنی کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔