نقطہ نظر

اداریہ: ’صحافیوں کے خلاف جرائم کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دینا ہوگی‘

پاکستان میں صحافیوں کے لیے یہ المناک سال رہا جہاں صرف نومبر 2023ء سے اگست 2024ء کے درمیان 6 صحافی قتل کیے گئے۔

آج دنیا بھر میں صحافیوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کا عالمی دن منایا جارہا ہے لیکن میڈیا انڈسٹری بالخصوص تنازع کا شکار خطے میں کام کرنے والے صحافیوں کو لاحق خطرات انتہائی حد تک بڑھ چکے ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

غزہ، مغربی کنارے اور لبنان میں صورت حال تشویش ناک ہے۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ (سی پی جے) کے مطابق گزشتہ سال اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے غزہ مغربی کنارے اور لبنان میں کم از کم 134 صحافی اپنی جان سے جا چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی حالات کم تشویش ناک نہیں جہاں گزشتہ 24 سالوں میں 150 سے زائد صحافی قتل کیے جاچکے ہیں۔

فریڈم نیٹ ورک 2024ء کی ایمپیونٹی رپورٹ میں سامنے آیا کہ پاکستان میں صحافیوں کے لیے یہ المناک سال رہا جہاں صرف نومبر 2023ء سے اگست 2024ء کے درمیان 6 صحافی قتل کیے گئے۔ ہراساں کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے جبکہ صحافیوں کو دھمکیوں اور حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صحافیوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب ہورہا ہے جبکہ ذمہ داروں کو سزا دینے کی شرح انتہائی کم ہے، اس سے ایک ایسا ماحول پیدا ہوتا ہے جس میں مجرمان باآسانی اپنے جرائم کا حساب دینے سے بچ جاتے ہیں۔

یہ سالانہ رپورٹ ان دھمکیوں کی حد کو ظاہر کرتی ہے اور تشدد کرنے والے اہم کرداروں کی نشاندہی کرتی ہے۔ صحافیوں کے خلاف جرائم کے دستاویزی شماریات کے مطابق تقریباً نصف (47 فیصد) واقعات میں سرکاری حکام ملوث ہوتے ہیں، سیاسی جماعتیں 12 فیصد کیسز میں ملوث ہیں جبکہ دیگر قابلِ شناخت گروپ صحافیوں کے خلاف 16 فیصد جرائم کے ذمہ دار ہیں۔

تشویش ناک طور پر ان حملوں میں سے 25 فیصد نامعلوم افراد نے کیے ہیں جو ان جرائم کی سنگینی اور پیچیدگی کو ظاہر کرتے ہیں۔ پریشان کن امر یہ ہے کہ زیرِ جائزہ مدت میں دستاویزی خلاف ورزیوں جن میں قتل، دھمکیاں، اور ہراساں کرنا شامل ہیں، کے 57 واقعات سامنے آئے۔

سندھ اس معاملے میں سرفہرست ہے جبکہ پنجاب، اسلام آباد اور خیبرپختونخوا بھی پیچھے نہیں۔ ان حملوں کا خمیازہ مختلف شعبہ جات سے وابستہ صحافیوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے جن میں ٹی وی کے لیے کام کرنے والے صحافیوں کو اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے، اس کے بعد پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا کے صحافی ہیں۔ خاتون صحافیوں کو بھی دھمکایا جاتا ہے جن کی شرح متاثرہ افراد میں سے 9 فیصد ہیں۔ قانون میں طریقہ کار موجود ہیں جن میں سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ آدر میڈیا پروفیشنلز ایکٹ اور فیڈرل پروٹیکشن آف جرنلسٹ اینڈ میڈیا پروفیشنل ایکٹ شامل ہیں۔

تاہم یہ قوانین پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا جس سے صحافیوں کے لیے خطرات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ صحافیوں کے خلاف جرائم کے حوالے سے مقامی میڈیا کی جانب سے پہلی بار سامنے آنے والا انڈیکس روشنی ڈالتا ہے کہ اگرچہ سندھ حکومت کی جانب سے کچھ پیش رفت دیکھی گئی ہے لیکن وفاق اور دیگر صوبے، میڈیا کارکنان کے تحفظ کے لیے فعال حفاظتی کمیشن قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

اس کلچر کو ختم کرنے کے لیے ریاست کو فیصلہ کن کارروائی کرنی چاہیے۔ موجودہ قوانین جیسے 2021ء تحفظ ایکٹ کو سختی سے نافذ کیا جانا چاہیے۔ حکام کو صحافیوں کے خلاف جرائم کی مکمل تحقیقات شروع کرنی چاہئیں اور مجرمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔ اس کے علاوہ مقتول صحافیوں کے اہل خانہ مالی اور قانونی مدد کے مستحق ہیں تاکہ یہ اپنے پیاروں کو کھونے کے غم سے نکلنے میں مددگار ثابت ہو۔

جمہوری معاشروں صحافی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا کام حکومتوں کو جوابدہ بنانا ہے، عوام کو آگاہ کرنا اور ناانصافیوں کا پردہ چاک کرنا ہوتا ہے۔ جب انہیں تشدد کے ذریعے خاموش کر دیا جاتا ہے تو اس کا اثر پورا معاشرہ محسوس کرتا ہے جس سے عوام میں اعتماد ختم ہوتا ہے اور جمہوری سالمیت کمزور ہوتی ہے۔

یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحافیوں کو تحفظ فراہم کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ان کے خلاف جرائم کرنے والوں کو قرار واقعی سزا ملے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

اداریہ