پاکستان

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس 2024 سینیٹ میں پیش

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے سیکشن 2 میں ایک ذیلی شق شامل کی گئی جس کے تحت کمیٹی میں چیف جسٹس کے علاوہ سینئر ترین جج اور چیف جسٹس کا نامزد کردہ جج شامل ہوگا۔
|

قائم مقام چیئرمین سیدال خان کی زیرِ صدارت ملک کے ایوان بالا (سینیٹ) کا اجلاس ہوا جس میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس 2024 پیش کردیا گیا۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق ترمیمی آرڈیننس وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں پیش کیا، جس کے بعد اسے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے سیکشن 2 میں ایک ذیلی شق شامل کی گئی ہے جس کے تحت کمیٹی میں چیف جسٹس پاکستان کے علاوہ ایک سینئر ترین جج اور ایک چیف جسٹس پاکستان کا نامزد کردہ جج شامل ہوگا۔

سیکشن 3 کی ذیلی شق 2 کے تحت اور آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت معاملے پر سماعت سے قبل مفادِ عامہ کی وجوہات دینا ہوں گی، آرڈیننس میں سیکشن 7 اے اور 7 بی کو شامل کیا گیا ہے،7 اے کے تحت ایسے مقدمات جو پہلے دائر ہوں گے، انھیں پہلے سنا جائے گا، اگر کوئی عدالتی بینچ اپنی باری کے برخلاف کیس سنے گا تو اسے اس کی وجوہات دینا ہوں گی۔

اس کے علاوہ سیکشن 7 بی کے تحت ہر عدالتی کیس اور اپیل کی ریکارڈنگ ہو گی اور اس کا ٹرانسکرپٹ تیار کیا جائے گا، یہ ٹرانسکرپٹ اور ریکارڈنگ عوام کے لیے دستیاب ہو گی۔

یاد رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ ترمیمی پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 منظور کیا تھا جس کے بعد صدر مملکت آصف زرداری کے دستخط کے نتیجے میں 20 ستمبر کو سپریم کورٹ ترمیمی پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 نافذ ہو گیا تھا۔

اس آرڈیننس میں چیف جسٹس کا سپریم کورٹ کے مقدمات مقرر کرنے کا دائرہ اختیار بڑھایا گیا۔

وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر عبدالشکور خان نے پوچھا کہ زرعی ترقیاتی بینک کے ملازمین میں بلوچستان کا کتنا کوٹہ ہے، سب کو معلوم ہے کہ بلوچستان کے ڈومیسائل جعلی بن جاتے ہیں۔

وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پورے میرٹ کے ساتھ ملازمین کی بھرتیاں کی جاتی ہیں، جو خدشات سینیٹر عبدالشکور خان نے بتائے ہیں، میں انہیں لکھ لیتا ہوں، آئندہ بورڈ کے اجلاس میں اس پوائنٹ کو سامنے رکھوں گا۔

اجلاس کے دوران وزارت منصوبہ بندی نے ایوان میں پیش کردہ اپنے ایک تحریری جواب میں کہا کہ جنیوا کانفرنس میں 2022 سیلاب کے بعد تعمیر نو کے لیے 10 ارب 96 کروڑ ڈالرز کے وعدے کئے گئے، سندھ کے لیے اعلان کردہ 2186.69 ملین ڈالرز میں سے 948.59 ملین ڈالرز خرچ کیے گئے،بلوچستان کے 494.35 ملین ڈالرز میں سے 30.81 ملین ڈالرز خرچ کئے گئے، خیبر پختونخوا کے 554.16 ملین ڈالرز میں سے 25.34 ملین ڈالرز خرچ کئے گئے، پنجاب نے تمام 2.8 ملین ڈالرز خرچ کئے۔

’حکومت کی آمدنی 10 ہزار ارب اور قرضوں کی ادائیگی بھی 10ہزار ارب ہے‘

ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بنظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے لیے دیے گئے تمام 223.14 ملین ڈالر مستحقین میں تقسیم کیے گئے، بلوچستان کی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے ہمیں انہیں زیادہ وسائل فراہم کرنا ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں 130 اربوں روپے کی مختلف منصوبہ رکھے گئے ہیں، ہم بلوچستان میں زیادہ بجٹ مختص کرتے ہیں، عملدرآمد کرنا متعلقہ وزارت کا کام ہوتا ہے، پی ایس ڈی پی کے حجم میں اضافے کی بجائے کمی ہو رہی ہے، پی ایس ڈی پی کا بجٹ 12 فیصد سے کم ہو کر 4 فیصد رہ گیا ہے، وفاقی حکومت کی جیب میں کل دس ہزار ارب آتا ہے، قرضوں کئ ادائیگی بھی دس ہزار ارب روپے ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہا حکومت کی کوشش ہے کہ ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے، جب وفاقی ترقیاتی بجٹ کا حجم سکڑ جائے گا تو پھر سارے پروجیکٹ انڈر بجٹ ہوں گے۔

سینیٹر ایمل ولی خان نے سوال اٹھایا کہ اس ہاؤس کو بتایا جائے کہ 18ویں ترمیم پر کتنا عملدرآمد ہوا ہے، صوبوں کو کتنے اختیارات دے گئے ہیں، پختونخوا کو کتنا دیا گیا ہے، اس کی تفصیل دی جائے، وفاق میں آج بھی سب کی سب وزارتیں موجود ہیں۔

وزیر منصوبہ بندی نے جواب دیا کہ میں وضاحت کردوں کہ اٹھارویں ترمیم پر کوئی تنقید یا حمایت نہیں کی، صوبوں کی انتظامی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں،ہمیں چاہیے کہ صوبوں کو لوکل سطح پر طاقتور بنائیں۔

ڈپٹی چیئرمین سیدال خان نے کہا کہ کبھی سوال کرنے والے اجلاس سے غیر حاضر ہوتے ہیں اور کبھی وزرا نہیں آتے، یہ ہاؤس آف فیڈریشن ہے، اجلاس میں کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں،اراکین کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

حکومت مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے بھرپور کام کر رہی ہے، علی پرویز ملک

وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک نے کہا کہ اکتوبر کے نمبر جو جاری ہوں گے اس میں مہنگائی کی شرح میں کمی آنے کا امکان ہے، میں سینیٹر صاحب کو ریکارڈ مہیا کر دوں گا، حکومت کو مہنگائی سے متعلق احساس ہے، حکومت مہنگائی کی تکلیف کو کم کرنے کے لیے ہر ضروری اقدامات کررہی ہے۔

سینیٹر ذیشان خانزادہ نے کہا کہ آٹو انڈسٹری کے لیے وزیر نے کہا ہے کہ الیکٹرکل وہیکل کے لیے پالیسی دے رہے ہیں، یہ حکومت کوئی تو پالیسی جاری کرے، حکومت اکنامک سرگرمی کو بڑھائے، لوکل سرمایہ کاروں کو موقع دیں، لوکل سرمایہ کاروں کو دیکھ کر بین الاقوامی سرمایہ کار خود آئیں گے۔

وزیر مملکت علی پرویز نے توجہ دلاو نوٹس پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ شرح سود اب کافی کم ہوگئی ہے، مہنگائی پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے، حکومت مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے بھرپور کام کر رہی ہے۔

سیدال خان نے کہا کہ آج دیوالی ہے اور میں اس موقع پر تمام ہندو برادری کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، پورے ایوان اور اپنی طرف سے دیوالی پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

ہندوبرادری سے تعلق رکھنے والے سینیٹر دنیش کمار نے دیوالی کے تہوار کے حوالے سے اظہار خیالکرتے ہوئے کہا کہ مجھے بڑی خوشی ہوئی وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے ہندووں کے ساتھ مل کر دیوالی کا تہوار منایا۔

ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز صاحبہ کو آج سے میں اپنی لیڈر مانتا ہوں، مریم نواز کے اس اقدام پر دنیا بھر اور پاکستان کی ہندو براردی ان کی شکر گزار ہے، آج پورے پاکستان میں ہندو برادری اپنی مرضی سے اپنا تہوار منارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتی برادری آزاد ہے، بلوچستان میں جو مذہبی آزادی ہے وہ پوری دنیا میں مثالی ہے، وزیراعلی خیبرپختونخوا بھی اگر ہندوبرادری کے ساتھ مل کر کیک کاٹ لیں تو کوئی حرج نہیں۔

وزیر اعلیٰ کے پی نے اسلام آباد پر چڑھائی کرنے والوں کو ترقی دینے کا اعلان کیا، طلال چوہدری

سینیٹر طلال چوہدری نے ایوان سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے دنوں اسلام آباد پر ایک چڑھائی کی گئی، کچھ لوگوں نے چڑھائی کی ان کو گرفتار بھی کیا گیا، اسلام آباد میں چڑھائی کرنے والے ایک صوبے کے سرکاری ملازم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان سرکاری ملازمین کو وزیر اعلیٰ ہاؤس میں بلایا گیا، رہائی کے بعد ان سرکاری ملازمین کو وزیر اعلی ہاؤس میں ہار پہنائے گئے، چڑھائی کرنے والے ملازمین کو ایک گریڈ میں ترقی دینے کا اعلان کیا گیا، وفاقی حکومت کو اس بات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے، صوبے میں موجود وفاقی نمائندہ کو ان ترقیوں پر کردار ادا کرنا چاہیے، قاضی فائز عیسی کے ساتھ جو لندن میں کیا گیا اس کی مزمت ہونی چاہیے۔

بعد ازاں سینیٹ کا اجلاس 4 نومبر بروز پیر شام ساڑھے 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔