24سال بعد پاکستان کا مالیاتی خسارہ سرپلس میں تبدیل
بلند ترین شرح سود اور پیٹرولیم لیوی کی ریکارڈ آمدنی سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو حاصل ہونے والے بے مثال منافع کی بدولت پاکستان 24سال میں پہلی بار اپنے مالیاتی خسارے کو سرپلس میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ کی جانب سے جمعرات کو جاری کردہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) کی مالیاتی آپریشنز رپورٹ کے مطابق مرکزی بینک نے 2500 ارب روپے کا اب تک کا سب سے زیادہ سرپلس منافع حاصل کیا، جس کی بنیادی وجہ ملک کی اب تک کی بلند ترین 22 فیصد کی شرح سود ہے۔
اس ہندسے کے حصول میں پیٹرولیم لیوی سے حاصل ہونے والے ریکارڈ 262 ارب روپے سے بھی مدد ملی جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 18 فیصد زیادہ ہے۔
بنیادی طور پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ریکارڈ منافع کی وجہ سے ملک کا مالی توازن یعنی قومی محصولات اور اخراجات کے درمیان فرق پہلی سہ ماہی میں ایک ارب 69کروڑ 60 لاکھ یا جی ڈی پی کے 1.4فیصد تک پہنچ گیا۔
یہ پچھلے سال کی اسی مدت میں ریکارڈ کیے گئے 0.9 فیصد خسارے کے بالکل برعکس ہے اور پہلی بار پاکستان نے بجٹ سرپلس حاصل کیا ہے اور مالی سال 2001 کے بعد سے لگاتار مالیاتی خسارے کے 24 سالہ جمود کو توڑ دیا ہے۔
مالیاتی توازن سے سود کی ادائیگیوں کو خارج کرنے والے ملک کے بنیادی سرپلس نے بھی 30 کھرب یا جی ڈی پی کے 2.4فیصد سے زیادہ کی بلندی کو چھو لیا ہے جو کہ پورے سال کے ہدف کا دوگنا ہے جو جی ڈی پی کا 1فیصد یا تقریباً 1.24ٹریلین مقرر کیا گیا تھا۔
گزشتہ سال کی اسی سہ ماہی کے دوران ملک میں تقریباً 980 ارب روپے کا بجٹ خسارہ اور 400 ارب روپے کا بنیادی سرپلس یا جی ڈی پی کا 0.4 فیصد پوسٹ کیا۔
گزشتہ سال اسی سہ ماہی کے دوران اسٹیٹ بینک کا منافع صفر تھا حالانکہ بعد میں دوسری سہ ماہی کے دوران یہ 972 ارب روپے پر آیا اور سال بھر میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔
اس سال نان ٹیکس ریونیو پہلی بار ٹیکس ریونیو سے تجاوز کر گیا، پہلی سہ ماہی میں نان ٹیکس ریونیو 550 فیصد سے زیادہ بڑھ کر 3.05 ٹریلین روپے ہو گیا جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 469 ارب روپے تھا، ٹیکس ریونیو 25 فیصد بڑھ کر 2.77 ٹریلین روپے ہو گیا جو گزشتہ سال 2.22 ٹریلین روپے تھا۔
لہٰذا، کل محصولات (ٹیکس اور نان ٹیکس دونوں) پہلی سہ ماہی میں تقریباً 117 فیصد بڑھ کر 5.83 ٹریلین روپے ہو گئے جو گزشتہ سال 2.686 ٹریلین روپے تھے، اس کے نتیجے میں کل آمدنی سے جی ڈی پی کا تناسب بھی تقریباً دوگنا بڑھ کر 30 ستمبر تک جی ڈی پی کا 4.7 فیصد ہو گیا جو ایک سال پہلے 2.5 فیصد تھا۔