پاکستان

خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے 60لاکھ کیوبک فٹ لکڑی کاٹنے کی اجازت دینے کا انکشاف

محکمہ جنگلات نے 60 لاکھ مکعب فٹ لکڑی کاٹنے کی اجازت دی، گزشتہ پانچ سالوں کے دوران غیر قانونی طور پر کاٹی گئی 1لاکھ 30 ہزار 255 کیوبک فٹ لکڑی کو ضبط کر لیا، سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش

خیبرپختونخوا حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ محکمہ جنگلات نے 60 لاکھ مکعب فٹ لکڑی کاٹنے کی اجازت دی اور گزشتہ پانچ سالوں کے دوران غیر قانونی طور پر کاٹی گئی مجموعی طور پر 1لاکھ 30 ہزار 255 کیوبک فٹ لکڑی کو ضبط کر لیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق تاہم یہ رپورٹ عدالت کے لیے ایک معمہ بنی ہوئی تھی کیونکہ اس پر کوئی تاریخ نہیں ہے جبکہ اس پر رپورٹ کو تیار اور دستخط کرنے والے آفیشلز کے نام بھی نہیں ہیں اور یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ آیا یہ اعدادوشمار صرف مردان ڈویژن کے ہیں یا پورے صوبہ خیبر پختونخوا کے ہیں۔

سپریم کورٹ کے جاری کردہ تین صفحات پر مشتمل فیصلے میں اس بات کا ذکر کیا گیا کہ کس طرح حال ہی میں خیبر پختونخوا حکومت کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ صوبے کے محکمہ جنگلات کے سالانہ بجٹ، ملازمین کی تعداد، لکڑی کاٹنے کی اجازت، لکڑی کی غیر قانونی کٹائی کی مقدار، صوبہ کے جنگلات کے رقبے، جنگلات کی کٹائی اور اس پر خرچ ہونے والی رقم اور اس کا تعین کیسے کیا گیا، ان تمام امور کا خاکہ تیار کرتے ہوئے پانچ سالہ رپورٹ پیش کرے۔

تاہم ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل الیاس نے رپورٹ پیش کی جس پر ڈویژن فارسٹ آفیسر مردان فاریسٹ ڈویژن مردان کے دستخط تھے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ڈویژنل فاریسٹ آفیسر نے یہ رپورٹ کیوں جمع کرائی جبکہ جو معلومات طلب کی گئی تھیں وہ پورے صوبے کے حوالے سے تھیں۔

بینچ میں جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی شامل تھے جنہوں نے کہا کہ عدالت میں دائر ہر دستاویز میں اسے جمع کرانے والے کا نام ہونا چاہیے کیونکہ 2022 کے صوبہ سندھ اور شہزاد حسین تالپور کے درمیان مقدمے میں یہ واضح طور پر کہا گیا تھا کہ عہدہ اور اس شخص کا نام ہمیشہ موجود ہونا چاہیے کیونکہ اس پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں 26 ویں ترمیم کا بھی حوالہ دیا گیا جس نے آئین میں ایک نیا آرٹیکل 9اے کو شامل کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہر شخص کو صاف ستھرے اور صحت مند پائیدار ماحول کا حق حاصل ہوگا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ماحول کی حیثیت کو بنیادی حق تک توسیع دینا اس کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے اور یہ بات قابل تعریف ہے کہ ایک صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول کے حق کو خاص طور پر آئین کا حصہ بنایا گیا ہے تاکہ نباتات اور حیوانات کے ساتھ ساتھ قدرتی ماحول کو بھی محفوظ رکھا جا سکے۔

سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ

سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلے میں مشاہدہ کیا کہ پاکستان میں جنگلات کا رقبہ تیزی سے کم ہو رہا ہے، جو جنگلات کے تحفظ کے ذمے دار محکمہ جنگلات کی ملی بھگت یا غفلت کی نشاندہی کرتا ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جنگلات قدرتی بارشوں میں یہاں پانی جمع ہونے کا قدرتی ذریعہ ہیں کیونکہ یہ سیلاب اور برفانی تودوں سے تحفظ یقینی بناتے ہیں۔

فیصلے کے مطابق ندی نالوں میں بہنے والے بارش کے پانی کو آلودہ نہیں ہونا چاہیے، جنگلات کی کٹائی کے نتیجے میں بے انتہا لینڈ سلائیڈنگ ہونے کے ساتھ ساتھ سیلاب بھی آتے ہیں اور جنگلات کا کم ہوتا ہوا احاطہ فوسل فیول جلانے کی وجہ سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے بچاؤ کے لیے کافی نہیں ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو بڑھاتا ہے اور جس کے نتائج لوگوں کو بھگتنا پڑتے ہیں، فیصلے میں کہا گیا کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔

فیصلے میں جنگلات کی کٹائی اور آلودگی کے اثرات کا تذکرہ کیا گیا ہے، اس لیے فوسل فیول کو جلانے سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں سے بچاؤ میں درخت بھی اتنے ہی اہمیت کے حامل ہیں۔

پاکستان کے عوام کا مستقبل جنگلات کے مناسب احاطے پر منحصر ہے اور عدالت نے حکم دیا کہ تیزی سے کم ہوتے جنگلات کا تحفظ یقینی بنانا چاہیے اور جنگلات کی کٹائی کو روکنے کے لیے کوششیں کی جانی چاہئیں۔

تاہم سماعت کے دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کی جانب سے خیبر پختونخوا حکومت میں بہترین پائیدار ماحولیاتی طریقوں کی حوصلہ افزائی اور ان پر عمل درآمد کے وعدے پر اس معاملے کو نمٹا دیا گیا۔