پاکستان

پارلیمنٹ کی خودمختاری سےکبھی انکار نہیں کیا، مولانا فضل الرحمٰن

عام آدمی کو امن و امان نصیب نہیں ہے، ہمارے پاس دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی پالیسی نہیں ہے، سربراہ جے یو آئی

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کی خودمختاری سےکبھی انکار نہیں کیا، پاکستان میں آئین کی بنیاد اسلام پر ہے، ملک میں جمہوریت کا مقصد یہ ہے کہ عوام کی مرضی کے خلاف زبردستی ان پر کوئی مسلط نہیں ہوگا، حق حکمرانی عوام کے متنخب لوگوں کو حاصل ہوگا۔

خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسمٰعیل خان میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں طویل عرصے تک آئین نہیں تھا، 1973 میں پاکستان کی قیادت نے بیٹھ کر تمام تر اختلاف رائے کے باوجود اس قوم کو آئین دیا۔

انہوں نے کہا کہ آئین میں ترامیم آتی رہی ہیں لیکن پارلیمنٹ کی خودمختاری سےکبھی انکار نہیں کیا، ہمارے آئین کی بنیاد اسلام پر ہے، آئین کہتا ہے تمام قوانین آئین و سنت کے تابع ہونگے، قران اور سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا، یہ ملک سیکولر نہیں ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے، ملک میں جمہوریت کا مقصد ہےکہ عوام کی مرضی کے خلاف زبردستی ان پر کوئی مسلط نہیں ہوگا، حق حکمرانی عوام کے متنخب لوگوں کو حاصل ہوگا لیکن آئین اور قانون میں جمہوریت کو بھی واضح کیا گیا ہے کہ اس میں قران و سنت کے منافی قانون سازی نہیں ہوگی۔

سرابرہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ آج تک اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات مرتب ہو کر پارلیمنٹ میں آتی رہی لیکن پارلیمان میں پیش ہونے کے بعد پتہ نہیں کس کمرے میں بند ہوئیں، پارلیمنٹ میں ان پر بحث کرنے کے لیے کوئی پابند نہیں تھا لیکن 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت پارلیمان میں اسلام نظریاتی کونسل کی سفارشات پر بحث ہوگی اور بل آخر اس کا نتیجہ قانون سازی کی صورت میں نکلے گا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ترمیم سے قبل پارلیمان میں کسی مسئلے پر ارکان کی جانب سے یہ کہا جاتا کہ اس قانون کو قانون سازی سے پہلے اسلام قران و سنت کے مطابق پرکھنے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل بھیجا جائے تو ایوان کی 40 فیصد اراکین کی طرف سے اس کی حمایت کرنا ضروری تھا تاہم اب آئینی ترمیم کے تحت 25 فیصد اراکین کی جانب سے مسئلہ اٹھانے کے بعد اسے اسلام نظریاتی کونسل بھیجا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت بھی قران و سنت کی پابند ہے، ہمارے یہاں الیکشن ہو جاتے ہیں لیکن نتائج کوئی اور مرتب کرتا ہے، ماضی میں کئی ایسی اسمبلیاں آئی اور ایسی قانون سازیاں کی گئی جس نے نظام مملکت پر عوام اور اداروں کی گرفت مضبوط کرنے کے بجائے اسٹیبلشمنت کو مضبوط کیا۔

سربراہ جے یو آئی نے کہا آج بھی یہی منصوبہ تھا مزید پیش رفت کی جائے، جمہوری نظام کو اسٹیبلشمنٹ کے پنجے کے نیچے دیا جائے اور اس کی گرفت کو مضبوط کیا جائے لیکن ایک مہینے کی مشقت کے بعد ہم نے ان کی گرفت کو مضبوط نہیں ہونے دیا اور ان کو اپنے دائرہ کار تک محدود کردیا۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہماری اسمبلیوں کو ایسے لوگوں سے بھر دیا جاتا ہے جن کے اندر دو صفات ہوتی ہیں ایک جن کو قران و سنت سے دلچسپی نہ ہو اور دوسرا ان کو اسٹیبلشمنٹ کا اشارہ ملتا رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم کسی کے دشمن نہیں ہیں، پاکستان اس صورت میں مستحکم ہوگا جب ہر ادارہ اپنے دائرہ کار کے اندر کے کام کرتا رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بہت سارے مسائل ہیں، عام آدمی کو امن و امان نصیب نہیں ہے، کئی دہائیوں سے یہ مسئلہ چلتا آرہا ہے لیکن ہمیں کہا جاتا ہے یہ مسئلہ ابھی حل ہوجائے گا اور ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے پاس دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی پالیسی نہیں ہے، ہم ملک میں دہشت گردی کو بھی اپنی عوام کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، کچھ ادارے جرم کے خاتمے کے لیے ہوتے ہیں لیکن ہمارے یہاں کچھ ادارے ایسے بھی ہیں جو جرم کو استعمال کرتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا صوبوں کے درمیان نفرتیں پیدا کی جارہی ہیں، ایک صوبہ دوسرے صوبے پر یلغار کی باتیں کررہا ہے، اس ساری صورتحال میں ہمارے پاس آئینی طور پر ایک تیسرا ستون ہے اور وہ وفاقی نظام ہے، آئین پاکستان کی روح سے کوئی صوبوں کے وسائل پر قبضہ نہیں کرسکتا، اگر ہم اپنے حق کی بات کرتے ہیں تو ہمیں غدار کہا جاتا ہے، یہ غداری نہیں ہے آئین کا دفاع ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج ہمارے لوگ دیہاتوں میں محفوظ نہیں ہیں، مسلح گروہ نے ہمارے نظام پر قبضہ کیا ہے، ریاستی رٹ نہیں ہے اور سب چیزیں ان کے قبضے میں ہیں۔

سربراہ جے یو آئی نے کہا پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک) ملکی ترقی کا دروازہ ہے، آج ہم امن و امان کے نام پر چین اور امریکا کو بلیک میل کررہے ہیں، یہ سب ڈالر کمانے کے طریقے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلے دن بھی کہا تھا کہ یہ الیکشن دھاندلی زدہ ہیں اور آج بھی ہم یہی کہتے ہیں، چاہے ہمارے صوبے کا ہو یا اور کسی کا، جو عوام کا نمائندہ ہی نہیں وہ اس مشکل میں کیسے مقابلہ کرے گا اور اس طرح پاکستان کیسے مستحکم ہوگا؟

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہمیں ادراک ہے ملکی معیشت کمزور ہے اور اگر اس کی بہتری کے لیے کوئی اقدامات کرے گا تو ہم اس کا راستہ نہیں روکیں گے، ہم اختلاف کی حدود کو بھی سمجھتے ہیں اور ملکی مفاد کو بھی سمجھتے ہیں۔

غزہ میں جاری جارحیت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ مسجد اقصیٰ کی حفاظت ہمارے ایمان کا حصہ ہے، آج وہ صہیونیوں کے قبضے میں ہے، غزہ کے مسلمان آج قربانیاں دے رہے ہیں اور ایک وحشی ملک ہمارے ریاستی دہشت گردی کرکے ہمارے بھائیوں کا قتل عام کررہا ہے، امریکا اور مغربی دنیا اس کی حمایت کررہی ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا 8 دسمبر کو پشاور میں بہت بڑی عوامی سطح پر اسرائیل مردہ باد کانفرنس ہوگی، ہم کشمیریوں اور فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن اسلامی دنیا خرگوش کی نیند سو رہی ہے، صرف بیانات سے کام نہیں چلے گا عملی طور پر اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ اسرائیل کو پسپائی پر مجبور کیا جاسکے۔