نقطہ نظر

26ویں کے بعد 27ویں ترمیم؟ ’نئے چیف جسٹس کو آئین کے دفاع کی ایک طویل جنگ لڑنی ہے ’

چیف جسٹس کو ماضی میں کی گئی عدلیہ کی کوتاہیوں کو بھی درست کرنا ہوگا جنہوں نے ادارے کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

پارلیمنٹ کے ذریعے ایک متنازع آئینی ترمیم منظور کروانے کے ایک ہفتے بعد ہی یہ اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ حکمران اتحاد آئین کو مسخ کرنے کے ایک اور منصوبے پر غور کر رہا ہیں۔

ایک اور تبدیلی جسے ’27ویں ترمیم‘ کا نام دیا دیا جارہا ہے، اس کی تفصیلات فی الحال سامنے نہیں آئی ہیں لیکن گمان یہی ہے کہ متوقع تبدیلی سے حکومت کا عدلیہ پر کنٹرول مضبوط ہوگا۔

اس نئی ترمیم میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل سے متعلق شقیں بھی شامل ہوسکتی ہیں جنہیں 26ویں ترمیم سے خارج کردیا گیا تھا۔ حکمران اتحاد آئین میں مزید تبدیلیاں کرنا چاہتا تھا لیکن اب وہ اسے منظور کروانے کی جلدی میں نظر آتے ہیں۔ اس عجلت کے پیچھے سب سے بڑی وجہ یہی لگتی ہے کہ 26ویں ترمیم منظور کروانے کے باوجود حکومت عدالتِ عظمیٰ کا مکمل طور پر کنٹرول حاصل نہیں کرسکی ہے۔

اسی دوران حکمران اتحاد سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھا کر 23 ججز کرنے کا نیا قانون لانے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ اس مقصد کا محرک واضح ہے۔ اس مرحلے پر 6 ججز کے اضافے کا مطلب یہ نہیں کہ زیرِالتوا مقدمات کا بوجھ کم ہوگا، جیسا کہ حکومت دعویٰ کررہی ہے۔ اس کے بجائے لگتا یہ ہے حکومت کو یہ خواہش زیادہ ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں اپنے پسندیدہ ججز کا اضافہ کریں۔ یہ سب نئے جوڈیشل کمیشن کے قیام کے بعد زیادہ آسان ہوگیا ہے جس میں اراکین پارلیمنٹ کا غلبہ ہے۔ نئے ججز کی تقرری کیسے ہوتی ہے، یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا۔

اس نئی پیش رفت کا وقت بھی اہم ہے۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ یہ عدلیہ کو مکمل طور پر ایگزیکٹو کے ماتحت کرنے کی کوشش ہے۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہے جس کے نہ صرف عدالتی نظام پر طویل مدتی اثرات مرتب ہوں گے بلکہ اس سے جمہوری عمل بھی متاثر ہوگا جو حکومت کی مختلف شاخوں کے درمیان طاقت کے توازن پر منحصر ہے۔

اگرچہ 26ویں ترمیم نے جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بننے سے روک دیا ہو لیکن حکومت کو یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ نئے چیف جسٹس حکومت کے احکامات پر چلیں گے۔ نئے چیف جسٹس نے دو اہم فیصلے کیے ہیں جن میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں شامل کیا اور انہیں سپریم جوڈیشل کونسل کا بھی رکن بنایا۔ ان کے ان فیصلوں نے شاید عدلیہ کو کنٹرول کرنے کے حکومتی گیم پلان کو سبوتاژ کیا ہے۔

حکمران اتحاد کے لیے سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ آیا وہ ایسا آئینی بینچ تشکیل دے پائیں گے جس کی انہیں خواہش ہے۔ حال ہی میں ایک ٹی وی انٹرویو میں مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور وزیراعظم کے مشیر رانا ثنااللہ نے کہا کہ چیف جسٹس کو آئینی بینچ کی سربراہی کرنی چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو اس بینچ کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ بعض مبصرین کے نزدیک یہ بیان عدالتی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔

بہ ظاہر حکومت کو یہ توقع تھی کہ ان کے اقدام سے دو ججز سائیڈ لائن ہوجائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ایک کھرے جج کے طور پر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اسکرپٹ پر نہیں چلیں گے۔ رواں ہفتے فل کورٹ اجلاس کے بعد سامنے آنے والا فیصلہ سپریم کورٹ کی سمت کو واضح کرے گا۔ اس وقت تقسیم شدہ عدالت کو متحد کرنا اور انصاف کی فراہمی کے عمل کو بہتر بنانا اولین ترجیحات میں شامل ہے۔

عدلیہ کی آزادی کو محدود کرنے والے حالیہ حکومتی اقدامات کی وجہ سے نئے چیف جسٹس کے چیلنجز میں اضافہ ہوا ہے۔ اپنے پیش رو کے اعزاز میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے حکومت کی تمام شاخوں کی اہمیت پر زور دیا جوکہ آئین کی بنیاد ہیں کیونکہ بہت سے حلقوں کے نزدیک آئین کی بنیاد خطرے میں ہے۔ نئے چیف جسٹس کو ابھی نہ صرف آئین کے دفاع کی ایک طویل جنگ لڑنی ہے بلکہ ماضی میں کی گئی عدلیہ کی کوتاہیوں کو بھی درست کرنا ہوگا جنہوں نے ادارے کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی متنازع میراث کو عوام کی یادداشت سے مٹانا انتہائی مشکل ہوگا۔ بہت سے حلقوں کا خیال ہے کہ ان کے دور میں عدالت عظمیٰ کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا۔ یہ شاذ و نادر ہی دیکھا جاتا ہے کہ ججز یوں کھلے عام بحث کریں لیکن بہت سے حلقوں نے نشاندہی کی کہ اہم سیاسی اور آئینی مقدمات میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے جانبدار ہوتے تھے۔

ایک بڑی سیاسی جماعت کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کرنے کے ان کے فیصلے کو ووٹرز کی بڑی تعداد کو ان کے حق رائے دہی سے محروم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا اور یہ فیصلہ ان کے عدالتی کریئر پر سیاہ دھبہ سمجھا جائے گا۔ اس فیصلے کے ملک کے جمہوری عمل پر طویل مدتی اثرات مرتب ہوں گے۔

اپنی ریٹائرمنٹ سے چند دن قبل انہوں نے کہا کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلے کی پابندی ضروری نہیں۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں کہ جب چیف جسٹس نے اپنے ساتھی ججز کو دبایا ہو۔ انہوں نے نہ صرف عدالت عظمیٰ کی رٹ کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ اقتدار کے کھیل میں سابق چیف جسٹس کا حکومت کا ساتھ دینے کی حقیقت کو بھی آشکار کیا۔

اپنی ریٹائرمنٹ سے چند قبل آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی نظرثانی اپیل کی سماعت کرنے کے فیصلے پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ان کا یہ فیصلہ 26ویں ترمیم سے پہلے آیا جس نے حکومت کو مبینہ طور پر حزب اختلاف کے اراکین کے جبری انحراف کی اجازت دی۔

بہت سے لوگ اس بات سے اتفاق کریں گے جو جسٹس منصور علی شاہ نے ایک خط میں کہا تھا جس میں سابق چیف جسٹس پر اپنے دور میں ’عدلیہ پر بیرونی دباؤ پر آنکھیں بند کرلینے‘ کا الزام عائد کیا تھا۔ قاضی فائز عیسیٰ کے الوداعی ریفرنس میں شرکت نہ کرنے والے جسٹس منصور علی شاہ نے الزام لگایا کہ، ’مداخلت کے خلاف کھڑے ہونے کے بجائے انہوں نے (قاضی فائز) مداخلت کی راہ ہموار کی اور اقتدار کا چیک اینڈ بیلنس کرنے والے ایک مقدس ادارے کے طور پر عدلیہ کے کردار کو مجروح کیا‘۔

تعجب نہیں کہ دیگر پانچ ججز نے بھی اس تقریب میں شرکت نہیں کی۔ یہ ایک ایسے چیف جسٹس کے خلاف علامتی احتجاج تھا جنہیں تقسیم اور با اثر قوتوں کے زیرِاثر آنے کی بنا پر یاد رکھا جائے گا۔

اس وقت شاید عدلیہ کو اپنی آزادی کا تحفظ کرنے میں سخت ترین امتحان کا سامنا ہے جبکہ حکومت آئین کو مزید مسخ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ایسی صورت حال میں حکومت کے اعلیٰ ترین جج کا کردار انتہائی اہم ہوجاتا ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے عہد کیا ہے کہ وہ ریاستی اداروں کی شاخوں کی طاقت کو تحفظ فراہم کریں گے۔ امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے وعدے پر پورا اتریں گے۔ ایک سخت ترین امتحان ان کا منتظر ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔