پاکستان

ایم ڈی کیٹ میں 97 فیصد نمبر لینے والے طلبہ کو ایف آئی اے نے طلب کرلیا

میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کے داخلہ ٹیسٹ کے پرچے لیک ہونے کی انکوائری کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ بعض طلبہ نے 200 میں سے 194 نمبرز حاصل کیے۔
|

میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کے داخلہ ٹیسٹ (ایم ڈی کیٹ) کے پرچے لیک ہونے سے متعلق تحقیقات کے دوران بعض طلبہ کا 97 فیصد سے زائد نمبر حاصل کرنےکا انکشاف ہوا ہے، جس کے بعد ان طلبہ کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے پوچھ گچھ کے لیے طلب کرلیا ہے۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق ایم ڈی کیٹ کے پرچے لیک ہونے کی انکوائری ہیومن رائٹس جسٹس اینڈ ڈیفنڈرز آرگنائزیشن کے رکن بورڈ آف ڈائریکٹر بلاول ملاح کی شکایت پر شروع ہوئی تھی۔

ایف آئی اے سائبر کرائم حکام کے مطابق انکوائری کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ بعض طلبہ نے 200 میں سے 97.5 فیصد نمبرز حاصل کیے، ان طلبہ کا تعلق ملک کے مختلف اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈز سے ہے جبکہ حکام سمجھتے ہیں کہ عملی طور پر کسی بھی طالب علم کے لیے اتنے زیادہ نمبر حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ اس بات کے شکوک و شبہات ہیں کہ طلبہ مبینہ طور پر پرچہ لیک ہونے کے معاملے میں ملوث ہیں اور حقائق و حالات سے بخوبی واقف ہیں۔

ایف آئی اے نے ایسے تمام طلبہ جنہوں نے 97.5 فیصد نمبرز حاصل کیے، انہیں یکم نومبر بروز جمعہ دن 12 بجے ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل میں طلب کیا ہے۔

حکام نے کہا ہے کہ طلبہ اپنا اصل شناختی کارڈ ساتھ لے کر آئیں، ان سے سوالات پوچھے جا سکتے ہیں، سائبرکرائم کے دفتر میں طلبہ کا فرضی امتحان لیا جا سکتا ہے تاکہ اصل پوزیشن کا بھی جائزہ لیا جا سکے۔

حکام کے مطابق منصفانہ عمل کے لیے سی آر پی سی کی دفعہ 160 کے تحت طلبہ کا بیان ریکارڈ کیا جائے گا۔

ایف آئی اے سائبر کرائم حکام کا کہنا ہے کہ اس قانونی نوٹس کی تعمیل کرنے میں ناکامی کا مطلب یہ سمجھا جائے گا کہ طلبہ کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے، ریکارڈ پر دستیاب شواہد کی بنیاد پراس حوالے سے قانونی کارروائی شروع کی جائے گی۔

واضح رہے کہ 22 ستمبر کو ملک بھر میں ہونے والے میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کے داخلہ ٹیسٹ پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا، 50 سے زائد طلبہ پر نقل کرنے کے الزامات میں مقدمات درج کیے گئے اور اس دوران 2 طلبہ کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کے ذرائع نے بتایا تھا کہ گزشتہ سالوں کے دوران اپنے تجربات کی روشنی میں انہیں توقع تھی کہ امتحان کے دوران ایسی کوششیں کی جائیں گی۔

انہوں نے کہا تھا کہ ہم ملک بھر سے موصول ہونے والی شکایات کی تصدیق کر رہے ہیں، شکایات کی جانچ کے بعد اس پر ایک تفصیلی رپورٹ جاری کریں گے اور مناسب کارروائی کریں گے۔

یاد رہے امتحان سے ایک روز قبل ہی سندھ میں صبح سے ہی افواہیں گردش کرنے لگیں کہ سوشل میڈیا پر پیپر لیک ہو گیا تاہم ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز نے امیدواروں سے کہا تھا کہ وہ ’بے بنیاد‘ رپورٹس سے پریشان نہ ہوں۔

ایک فیکلٹی ممبر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بدعنوانی کے الزامات سے متعلق دعویٰ کیا تھا کہ اس میں کئی اسٹیک ہولڈرز نے اپنا حصہ لیا اور ٹیسٹ کو آؤٹ سورس کیا، پی ایم ڈی سی کی جانب سے متعدد یونیورسٹیوں کو ٹیسٹ آؤٹ سورس کرنے کے بعد، ان تعلیمی اداروں نے ٹیسٹ کو مزید آگے آؤٹ سورس کیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ پی ایم ڈی سی نے امیدواروں سے فیس کی مد میں 8 ہزار وصول کیے اور پھر یونیورسٹیوں کو ہدایت کی کہ وہ ہر امیدوار کی فیس سے اپنا حصہ 2 ہزار روپے کاٹ کر ٹیسٹ منعقد کریں۔

دوسری طرف، کچھ یونیورسٹیوں نے اپنے حصے کی کٹوتی کے بعد ایم ڈی کیٹ کو دیگر یونیورسٹیوں کو آؤٹ سورس کیا، ٹیسٹ کے آؤٹ سورسنگ کی وجہ سے اب کوئی بھی اسٹیک ہولڈر ذمہ داری قبول نہیں کرے گا۔

اس دوران پی ایم ڈی سی اور نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز (این یو ایم ایس) کے زیر اہتمام ٹیسٹ کے درمیان موازنہ بھی کیا گیا جو فوج کے زیر انتظام اسکولوں کے لیے ٹیسٹ کا اہتمام کرتی ہے۔

ایک امیدوار نے ڈان کو بتایا تھا کہ انہوں نے پی ایم ڈی سی کے 8 ہزار فیس کے مقابلے میں نمز کو 6 ہزار ادا کیے جب کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کی طرف سے فراہم کردہ این یو ایم ایس ٹیسٹ پیپر، ریفریشمنٹ کا معیار بھی بہت بہتر تھا اور نگران عملے کا رویہ بھی مثبت تھا۔