پاکستان

’پی ڈبلیو ڈی کی بندش کے بعد صوبے منتقلی کیلئے تیار 162 منصوبے لینے کیلئے تیار نہیں‘

صوبوں کو ستمبر سے کہہ رہے ہیں منصوبوں کو سنبھال لیں، حکومتیں ابھی تیار نہیں، تاہم ان منصوبوں کے ذمہ دار اب وہ ہیں، وزارت ہاؤسنگ کے حکام کی سینیٹ قائمہ کمیٹی کوبریفنگ
|

ایوان بالا (سینیٹ) کی قائمہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس کے اجلاس میں وزارت ہاؤسنگ کے حکام نے انکشاف کیا ہے کہ پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) کی بندش کے بعد ہمارے پاس محکمے کے 162 منصوبے منتقل کیے جانے کے لیے تیار ہیں لیکن صوبائی حکومتیں انہیں لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

سینیٹر ناصر محمود کی زیرِ صدارت سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد پوا، اجلاس میں پاک پی ڈبلیو ڈی کے ملازمین کو دیگر محکموں میں تعینات کرنے کا معاملہ زیر بحث آیا تو وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس حکام نے کمیٹی ارکان کو بریفنگ دی کہ پاک پی ڈبلیو ڈی میں ساڑھے 3 ہزار مستقل اور ڈھائی ہزار غیر مستقل ملازمین ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کسی ادارے کو ختم کرنے پر سرکاری ملازمین کو سرپلس پول میں بھیج دیا جاتا ہے، ان ملازمین کو گیس کمپنیوں، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) اور دیگر حکومتی اداروں میں لگایا جائے گا۔

حکام نے بتایا کہ وفاقی دارالحکومت کے کام اور عملے کو کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے حوالے کر دیا گیا ہے، لاہور اور کراچی میں کام کرنے والا عملہ وہیں کے محکموں میں تعینات کر دیا جائے گا، سرپلس پول والے سرکاری ملازمین کو دوسرے سرکاری اداروں میں ہی بھیجا جا سکتا ہے، سرکاری ملازمین کو حکومتی ملکیتی کمپنیوں میں منتقل نہیں کیا جا سکتا ہے۔

حکام نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ سرکاری ملازمین سرپلس پول میں ہی رہیں گے جب تک کہ ان کی ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوجاتی، پاک پی ڈبلیو ڈی وفاقی اور صوبائی منصوبوں پر کام کر رہا تھا، محکمہ 138 منصوبے صوبائی حکومتوں کو منتقل کر رہا ہے، اب تک 27 منصوبوں کو صوبوں کے حوالے کر دیا ہے، پنجاب کو 42، سندھ کو 26، بلوچستان کو 57 اور خیبر پختونخوا کو 13 منصوبے منتقل کیے جائیں گے۔

حکام نے بریفنگ دی کہ صوبائی حکومتوں کو ستمبر سے کہہ رہے ہیں کہ منصوبوں کو سنبھال لیں، صوبائی حکومتیں ابھی تیار نہیں تاہم ان منصوبوں کے اب وہ ذمہ دار ہیں، پنجاب کو 27 منصوبے منتقل کیے مگر ابھی صوبائی کابینہ نے ان کو لینے کی منظوری نہیں دی ہے، وفاقی وزیر منصوبہ بندی کو ہر ہفتے بریفنگ دی جا رہی ہے۔

چیئرمین کمیٹی نے استفسار کیا کہ یہ کام کب تک مکمل ہوگا جس پر حکام نے جواب دیا کہ ہم نے یہ کام 15 ستمبر تک مکمل کرنا تھا، ہماری طرف سے کام میں تاخیر نہیں ہے، صوبائی حکومتیں تیار نہیں ہیں، ہمارے پاس 162 منصوبے منتقل کیے جانے کے لیے تیار ہیں، ہماری طرف سے تاخیر نہیں ہے۔

کمیٹی میں وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس کے ذیلی اداروں میں منصوبوں میں صحافیوں کے کوٹے کا معاملہ بھی زیر بحث لایا گیا، حکام نے بریفنگ دی کہ جی 13 اور جی 14 میں صحافیوں کو 245 پلاٹ دیے گئے ہیں، صحافیوں کے لیے کوٹہ مختص کیا جاتا ہے، صحافیوں کے لیے پلاٹ کی منظوری وزارت اطلاعات دیتی ہے، وزارت اطلاعات کی اپنی کوٹہ پالیسی ہے جس کے تحت وہ صحافیوں کا نام دیتی ہے۔

حکام نے بتایا کہ وزارت اطلاعات کی پالیسی کے خلاف کچھ لوگوں نے وزیر اطلاعات کو درخواستیں دیں، وزارت اطلاعات نے اپنی سمری واپس لے لی جب وزارت نئے نام بھیجے گی تو الاٹ کر دیں گے، وزارت اطلاعات کو الاٹمنٹ کے خلاف متعدد درخواستیں ملیں، وزارت اطلاعات نے یکم فروری کو شکایات کے ازالہ کے لیے کمیٹی قائم کی ہے، اس میں صحافیوں کے 5 نمائندے شامل کیے گئے مگر وہ اجلاس میں نہیں آئے۔

صحافتی کمیونٹی کے نمائندے نے کمیٹی کو بریف کیا کہ وزارت اطلاعات نے 9 سال میں سنیارٹی لسٹ بنائی اور خود ہی اس کو واپس لے لیا، وزارت اطلاعات اب 10 ماہ میں نئی لسٹ تیار نہیں کر سکی ہے، وزارت اطلاعات کے پاس تمام معلومات ہیں، سنیارٹی کی بنیاد پر صحافیوں کو نامزد کرے، وزارت اطلاعات مکمل میرٹ پر فیصلہ کرے۔

اجلاس میں چیئرمین کمیٹی نے اس معاملہ کے حل کے لیے نئی کمیٹی بنا دی اور ہدایت دی کہ اس معاملے کو ایک ماہ میں حل کیا جائے۔