نقطہ نظر

’کیا میں عورت ہونے یا کسی کی زوجہ بننے کے معیار پر پورا نہیں اترتی؟‘

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً ہر 20 میں سے ایک خاتون ویجینسمز کی حالت میں مبتلا ہے جس کے بارے میں کسی کو بتانے میں وہ شرمندگی محسوس کرتی ہیں۔

’تمہارا شوہر تمہیں چھوڑ دے گا یہ بات میں تمہیں لکھ کر دیتی ہوں‘، یہ جملہ 28 سالہ لائبہ* نے کراچی کی ایک تجربہ کار اور نامور گائناکالوجسٹ سے سنا۔ لائبہ اب 34 برس کی ہوچکی ہیں لیکن ڈاکٹر کے یہ الفاظ اب بھی انہیں یاد ہیں۔ ’الفاظ کا چناؤ اتنا تکلیف دہ نہیں تھا جتنا کہ ہمدردی سے عاری ڈاکٹر کا لہجہ تھا کہ جیسے وہ مجھے شرمندہ کرنا چاہ رہی ہوں‘، لائبہ بتاتی ہیں کہ اس وقت وہ اپنی جگہ پر ساکت ہوچکی تھیں اور خدشات کا اظہار کرنے سے قاصر تھیں۔

’جو عورت اپنا بنیادی کام نہ کرپائے۔۔۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ بڑی ہوجائیں اور اسکول جانے والی بچیوں جیسی حرکتیں کرنا چھوڑ دیں‘۔

اس واقعے کے بعد لائبہ کو کسی اور گائناکالوجسٹ سے رجوع کرنے کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار کرنے میں ہی دو سال کا وقت لگا۔ وہ یاد کرتی ہیں کہ کلینک سے واپسی پر وہ روتے ہوئے گھر گئی تھیں، ’میری ماں مجھے یقین دلاتی رہیں کہ میرے شوہر ایسا کچھ نہیں کریں گے لیکن انتظار گاہ اور پھر گھر جاتے ہوئے گاڑی میں بھی میرے آنسو رواں تھے۔ مجھے کوئی شک نہیں تھا کہ میرے شوہر مجھے چھوڑ دیں گے لیکن جو بات میں اپنی ماں کو نہیں سمجھا سکتی تھی وہ یہ تھی کہ بات صرف میرے شوہر کی مجھے چھوڑ دینے کی نہیں تھی۔ سچ تو یہ تھا کہ میں نے ڈاکٹر سے اس معاملے پر بات کرنے کے لیے پورے ایک سال تک ہمت جمع کی کیونکہ میں بہت شرمندگی محسوس کررہی تھی‘۔

لائبہ دو سال بعد ایک اور گائناکالوجسٹ کے پاس گئیں۔ ’مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنی دوست جو ان سے علاج کروا چکی تھیں، سے پوچھا کہ کیا ان کا لہجہ نرم ہے، آپ تصور کرسکتے ہیں کہ میں ڈاکٹر سے اس وقت کیا توقع کررہی تھی؟‘

دوسری ڈاکٹر نے لائبہ کی کہانی سنی اور تشخیص کی کہ انہیں ’ویجینسمز (Vaginismus) ’ہے۔ لائبہ بتاتی ہیں، ’مجھے اطمینان ہوا۔ یعنی کسی سنگین مرض کی تشخیص ہونے پر عموماً لوگوں کو اطمینان نہیں ہوتا لیکن میں خود کو بہت تنہا محسوس کررہی تھی، تو ایسے میں جب مجھے علم ہوا کہ ایسا کوئی وجودی مرض ہے تو میں مطمئن ہوگئی کہ میری طرح دیگر خواتین بھی ہوں گی‘۔

تو لائبہ کو جس مرض کی تشخیص ہوئی وہ کیا ہے؟ برطانوی نیشنل ہیلتھ سروس نے اس کی تشریح کچھ یوں کی ہے، ’یہ ایک ایسی حالت ہے کہ جس میں وجائنا یا اندام نہانی اس صورت میں اچانک سکڑ ہوجاتی ہے کہ جب آپ اس میں کچھ داخل کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘۔ یہ تکلیف دہ اور پریشان کُن دونوں ہوسکتا ہے لیکن اس کا علاج موجود ہے۔ ویجینسمز 18 سے 25 سال کی خواتین میں زیادہ عام ہوتا ہے لیکن یہ کسی بھی خاتون کو لاحق ہوسکتا ہے۔

کراچی کے التمش جنرل ہسپتال سے وابستہ گائناکالوجسٹ ڈاکٹر مالا جتندر شہانی نے اس کی تفصیل سے وضاحت کی۔ ڈاکٹر مالا کے مطابق دخول کی کوشش کرنے میں ویجینسمز جسم کا خودکار ردعمل ہوتا ہے۔ اندام نہانی کے ارد گرد کے پٹھے لاشعوری طور پر سخت ہو جاتے ہیں۔ یہ ردعمل مکمل طور پر غیر ارادی ہوتا ہے اور خاص طور پر ایسا جنسی فعل کے دوران ہوتا ہے۔

ڈاکٹر مالا شہانی بتاتی ہیں کہ بطور ڈاکٹر وہ اکثر ایسی خواتین سے ملتی ہیں جو اس حالت کے علاج کے لیے مختلف حربوں کا استعمال کرتی ہیں۔ وہ مینسٹرل کپس، ٹیمپونز یا دیگر آلات تو استعمال کرسکتی ہیں لیکن جب جنسی فعل کی بات آتی ہے تو ان کے پٹھے غیرارادی طور پر سخت ہوجاتے ہیں۔ یہ حالت جو ویجینسمز کے نام سے جانی جاتی ہے، پٹھوں کی غیر ارادی اینٹھن ہے جو ویجائنا میں دخول کو پیچیدہ بناتی ہے۔

ایسا کیوں ہوتا ہے؟

ڈاکٹر مالا شہانی کے مطابق ویجینسمز ایک نفسیاتی ردعمل ہے یعنی دماغ اور جسم کے درمیان ایک تعامل جس میں درد کی توقع کرتے ہوئے اندام نہانی کے پٹھے سکڑ جاتے ہیں اور اینٹھن میں چلے جاتے ہیں۔ ایسا مختلف نفسیاتی اور جسمانی وجوہات کی بنا پر ہو سکتا ہے لیکن یہ بنیادی طور پر نفسیاتی مسئلہ ہے جس کی جڑیں عموماً جنسی فعل یا سیکس کے حوالے سے ہمارے معاشرے کے منفی معیارات ہیں۔

بہت سے معاشروں میں جنسی فعل ایک ممنوعہ موضوعِ گفتگو ہے۔ ڈاکٹر مالا شہانی بتاتی ہیں کہ بہت سی لڑکیوں میں جنسی تعلقات کے حوالے سے یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ تکلیف دہ عمل ہے۔ ’ہماری مائیں، دادی، بہنیں اور رشتہ دار اس موضوع کے منفی پہلوؤں پر بات کرتی ہیں جس کی وجہ سے بہت سی نوجوان لڑکیوں کی نفسیات میں یہی بیٹھ جاتا ہے کہ جنسی فعل کا مطلب تکلیف ہے‘۔

کراچی کے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کی کنسلٹنٹ گائناکالوجسٹ ڈاکٹر عمیمہ اختر کہتی ہیں، ’تقریباً ہر عورت کسی نہ کسی حد تک اس تجربے سے گزرتی ہے لیکن کچھ اس خوف پر قابو پا لیتی ہیں جبکہ کچھ خواتین اس خوف سے نکل نہیں پاتیں‘۔ وہ بتاتی ہیں کہ اگرچہ کوئی شماریاتی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں لیکن ’تقریباً ہر دو کلینکس میں ایک مریض ویجینسمز سے گزری ہوتی ہیں‘۔ ڈاکٹر عمیمہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ یہ ایسی حالت نہیں کہ جس کا مؤثر علاج ممکن نہ ہو۔

وہ خواتین کی اس کیفیت کو مردانہ کمزوری سے تشبیہ دیتی ہیں کیونکہ یہ دونوں ہی انسان کے اختیار میں نہیں ہیں۔ ڈاکٹر عمیمہ اختر کہتی ہیں کہ اگر کوئی اس پر قابو پانے میں جدوجہد کررہا ہے تو یہ کسی صورت بھی باعثِ شرمندگی نہیں۔ ’اس میں عورت کی کوئی غلطی نہیں ہوتی کیونکہ یہ ایسا عمل ہے جس پر قابو پانا اس وقت عورت کے اختیار میں نہیں ہوتا‘۔

جرنل آف ساؤتھ ایشین فیڈریشن آف اوبسٹیٹرکس اینڈ گائناکالوجی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں ویجینسمز کا پھیلاؤ ایک سے سات فیصد کے درمیان بتایا گیا ہے۔ امریکا کے کلینکس میں ویجینسمز کا پھیلاؤ 5 سے 17 فیصد تک ہے۔ مصر میں کیے گئے مطالعات میں ویجینسمز کی شرح 20 فیصد بتائی گئی۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ بھارت میں ویجینسمز پر کوئی تحقیق نہیں کی گئی تھی لیکن شائع تحقیق کے تحت بھارت کی ریاست کرناٹک میں 160 شادی شدہ خواتین کا سروے کیا گیا جس میں سامنے آیا کہ 28 فیصد خواتین کو پرائمری ویجینسمز تھا جبکہ 30 فیصد ثانوی ویجینسمز میں مبتلا تھیں۔

چند مطالعات کے علاوہ کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں کہ پاکستان میں کتنی خواتین اس حالت میں مبتلا ہیں لیکن اپنے تجربے کی بنیاد پر ڈاکٹر عمیمہ اختر کا اندازہ ہے کہ تقریباً 20 میں سے ایک عورت کو ویجینسمز ہے۔

جنسی خوشی کے بارے میں پاکستان میں شاذ و نادر ہی گفتگو ہوتی ہے۔مباشرت کو اکثر خراب اور ناقابل بیان فعل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس کا تعلق درد اور خون بہنے سے ہوتا ہے۔ یہ منفی تاثر لوگوں میں جنسی فعل کے حوالے سے خوف اور خدشات پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

سمیعہ خان، ایک لائسنس یافتہ کاؤنسلر، ازدواجی اور خاندانی تھراپسٹ اور وسکونسن امریکا میں پریکٹس کرنے والی سرٹیفائیڈ سیکس تھراپسٹ ہیں، کہتی ہیں، ’معاشرتی اور مذہبی پس منظر ویجینسمز میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر ہمارا دماغ اور جسم آپس میں جڑے ہوئے ہیں بالخصوص جذبات اور جسمانی تجربات میں آپس میں ان کا تعلق ہے۔ جب ہمارا معاشرہ ایسے پیغامات بھیجتا ہے جو مباشرت کو ممنوع قرار دیتے ہیں تو ہم اس عقیدے کو اپنا لیتے ہیں کہ یہ ایسی چیز ہے جس سے ہمیں بچنا چاہیے یا ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ نتیجتاً جب شادی کے بعد مباشرت کی باری آتی ہے تو ہم ان تصورات کی وجہ سے پریشانی کا سامنا کرسکتے ہیں‘۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ ہمارا جسم اس لیے ’انکار‘ کرتا ہے کیونکہ ہمارا دماغ مباشرت کو برا، خراب، یا نامناسب فعل سمجھتا ہے۔ نتیجتاً اندرونی عقائد پر جسم مزاحمت کرکے رد عمل ظاہر کرتا ہے جس سے درد ہوتا ہے اور پٹھوں میں کھچاؤ پیدا ہوتا ہے جوکہ جنسی فعل کو روکتا ہے۔ سمعیہ خان کے خیال میں یہ عوامل ویجینسمز کی حالت کو مزید خراب کرسکتے ہیں۔

ڈاکٹر مالا شہانی کے مطابق جنسی استحصال یا ریپ کے ٹراما کی وجہ سے بھی خواتین میں ایسی حالت پیدا ہوسکتی ہے۔

36 سالہ میشا* جنہوں نے بچپن میں جنسی استحصال کا سامنا کیا، کہتی ہیں کہ ’میں ایک ایسے ماحول میں پلی بڑھی ہوں جہاں جنسی استحصال کا بوجھ بھی اس سے متاثرہ مظلوم شخص کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اگرچہ میں جانتی تھی کہ جو ہوا اس میں میری کوئی غلطی نہیں تھی لیکن میں نے انتخاب کیا کہ میں اپنے ٹراما کو دبا دوں۔ شادی کے بعد جنسی تعلق قائم کرنے میں مجھے جدوجہد کا سامنا کرنا پڑا۔ میرے شوہر نے محسوس کیا کہ ہمارے درمیان ایک دیوار حائل ہے جس کی بنا پر ہم جنسی فعل انجام نہیں دے پا رہے۔ میں نے شروع میں سوچا کہ شاید یہ میری ہی خرابی ہے لیکن ایک سرجن سے مشاورت کرنے پر مجھے پتا چلا کہ مجھے ویجینسمز کی بیماری ہے‘۔

میشا کی تشخیص امریکا میں ہوئی اور وہ اپنی شادی کے بعد وہاں منتقل ہونے پر ممنون ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ اگر وہ اپنے آبائی شہر گوجرانوالہ میں رہتی تو شاید ان کا علاج نہ ہوپاتا۔

اگرچہ جنسی استحصال اہم عنصر ہے لیکن یہ اس حالت کی واحد وجہ بھی نہیں۔

27 سالہ انعم* یاد کرتی ہیں کہ ان کی گائناکولوجسٹ نے ان میں ویجینسمز کی تشخیص کی تھی جسے انہوں نے رد کردیا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’ڈاکٹر مصر تھی کہ بچپن میں میرا جنسی استحصال ہوا تھا لیکن میں اسے تسلیم نہیں کرتی اوراسے دبانے کی کوشش کررہی تھی۔ میں ایسا کچھ نہیں کررہی تھی لیکن وہ آمادہ نہیں ہوئیں، اس لیے میں نے اس وقت تک مختلف ڈاکٹرز کو دکھایا جب تک مجھے کوئی ایسا ڈاکٹر نہ مل جائے جو یہ سمجھے کہ یہ حالت میرے اختیار سے باہر ہے اور یہ ایسی حالت نہیں ہے کہ جو جنسی استحصال کے ٹراما سے پیدا ہوئی ہو‘۔

لیکن کسی کو کیسے پتا چلے گا کہ وہ ویجینسمز میں مبتلا ہے کیونکہ اس کے بارے میں تو کوئی بات ہی نہیں کرنا چاہتا؟ ’ہم ہر چیز گوگل کرتے ہیں نا؟ پین کیک بنانے سے لے کر گیزر ٹھیک کرنے تک ہم ہر چیز سے متعلق گوگل کرتے ہیں۔ تو گوگل کے ذریعے ایسی جسمانی حالت کے بارے میں دریافت کرنا بھی قدرتی تھا‘، یہ کہنا تھا عائشہ* کا جو اے لیولز کو ریاضی پڑھاتی ہیں۔

’میں نے گوگل پر صرف ’اندام نہانی میں دخول کا خوف‘ لکھا اور میں ویجینسمز سے متعارف ہوئی بلکہ ساتھ ہی مجھے ایک پوری ایک کمیونٹی ملی جو میری مدد کرنے کو تیار تھی۔ تاہم مجھے ان سفید فام لوگوں کے ساتھ ثقافتی طور پر جڑنا تھوڑا مشکل لگا جو حیران تھے کہ میں نے 25 سال کی عمر تک کسی طرح کے جنسی فعل میں ملوث نہیں رہی۔‘

تب عائشہ نے محسوس کیا کہ انہیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ان کی زبان اور معاشرے کو سمجھیں، جہاں انہیں اپنی بات سمجھانے کے لیے زیادہ جدوجہد نہ کرنی پڑے۔ ’میں ہر مسئلے کو گوگل کرتی ہوں یعنی ان چیزوں کو جن پر اپنے شوہر سے بات کرتے ہوئے میں شرمندگی محسوس کرتی ہوں۔ گوگل بھی ایک سہولت ہے۔ مجھے پرانے دور کی عورتوں سے ہمدردی ہے جنہیں یہ سہولت حاصل نہ تھی‘۔

اس حالت کا علاج کیا ہے؟

دخول سے گھبراہٹ حالت کو مزید خراب کرسکتی ہے۔ ویجینسمز کے علاج کے اختیارات میں اکثر پیلوک فلور کے پٹھوں کو آرام دینے کے لیے جسمانی تھراپی کی جاتی ہے جبکہ کسی بھی انزائٹی یا خوف کو دور کرنے کے لیے سائیکو تھراپی کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔

کاؤنسلر سمعیہ خان کا خیال ہے کہ ایک فزیکل تھراپسٹ جو پیلوک فلور تھراپی میں مہارت رکھتا ہے وہ پٹھوں کو آرام اور ورزش کے ذریعے اندام نہانی کی اس بیماری سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ خاص طور پر اس صورت میں فائدہ مند ہوسکتا ہے جب نفسیاتی اثرات یا ٹراماز جیسے بچپن میں جنسی استحصال وغیرہ، پٹھوں کے کھچاؤ کا باعث بنتے ہیں۔ اس طرح کے علاج کو معمول بنا کر اور اس حوالے سے وسائل کو وسیع پیمانے پر دستیاب بنانا ہوگا تاکہ ہم اپنے معاشرے میں پائے جانے والی شرم کو کم کرسکیں۔

اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ آیا ویجینسمز جسمانی ہے یا نفسیاتی، ڈاکٹر مالا شہانی کہتی ہیں، ’طبی اصطلاح میں جب جسمانی عوامل شامل ہوتے ہیں تو ہم اسے dyspareunia کہتے ہیں، ویجینسمز نہیں۔ ویجینسمز میں بنیادی طور پر پٹھوں کا سکڑنا شامل ہوتا ہے۔ Dyspareunia میں جسمانی عوامل کی موجودگی میں درد کو بیان کرتا ہے۔ دوسری طرف ویجینسمز بنیادی طور پر نفسیاتی مسئلہ ہے‘۔

جسمانی عوامل جیسے بچے پیدا کرنا یا اندام نہانی کے زخم، ٹیومر، ایٹروفی، یا اس کا تنگ ہونا تکلیف اور درد کا باعث بنتا ہے لیکن یہ اکثر اوقات بنیادی اور ثانوی نفسیاتی وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے۔ اندام نہانی میں دخول کی کوشش کے دوران پٹھوں میں کھچاؤ ہوسکتا ہے اور بعض اوقات اس سے ہائمن بھی متاثر ہوسکتی ہے۔

ویجینسمز کے علاج کے لیے ڈاکٹر مالا شاہانی مختلف شعبہ جاتی معیار کو تجویز کرتی ہیں جس میں ایک ماہر نفسیات، فزیو تھراپسٹ، جنسی معالج اور بعض اوقات درد کے لیے نیورو سرجن سے رجوع کرنا شامل ہے۔ ادویات بھی معاون ثابت ہوسکتی ہیں جیسے ٹاپیکل جیل درد کے احساس کو کم کرتی ہے، پٹھوں کو آرام دینے کے لیے مرہم کا استعمال یا بوٹوکس انجیکشن بھی پٹھوں کو آرام دے سکتے ہیں۔ ماہر نفسیات کی تجویز کردہ اینٹی اینزائٹی ادویات بھی فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہیں جو مرض کی تاریخ اور مریض کی حالت کے مطابق دی جاتی ہیں۔

سمعیہ خان کا یہ خیال ہے کہ ویجینسمز کو ٹھیک کرنے کا کوئی ایک مختص طریقہ نہیں ہے۔ صرف ٹاک تھراپی یا سائیکو تھراپی کافی نہیں ہیں، انہیں پیلوک فلور فزیکل تھراپی کے ساتھ کرنا ہوگا تاکہ نفسیاتی اور جسمانی دونوں پہلوؤں کو حل کیا جاسکے۔

اگرچہ ٹاک تھراپی دماغ اور جسم کے تعاون اور رابطے کو بحال کرنے میں مدد کرتی ہے، پیلوک فلور تھراپی سے پٹھوں کو آرام ملتا ہے جبکہ درد میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔ تحقیق سے سامنے آیا ہے کہ ویجینمسز صرف نفسیاتی مسئلہ نہیں ہے۔ اس میں جسم کے پٹھوں میں حقیقی طور پر کھچاؤ پیدا ہوتا ہے جس کا ذہنی اور جسمانی طور پر علاج کرنے کی ضرورت ہے۔

جسمانی مسئلے کو حل کرنے کے لیے ڈاکٹر مالا شاہانی کہتی ہیں کہ چھوٹے سائز کے ویجائنل ڈائلیٹرز کا استعمال کریں۔ وہ اکثر اپنے کلینک میں مریضوں کے شوہروں کو ڈائلیٹر کا استعمال کرنا سکھاتی ہیں کیونکہ کچھ خواتین مریض اپنے شوہر کے ساتھ زیادہ آرام دہ محسوس کرتی ہیں۔

ڈاکٹر مالا شہانی کے نزدیک ویجینسمز پر قابو پانے کے لیے شوہر کی سپورٹ انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ انہوں نے ایسے بھی جوڑوں کو دیکھا ہے جنہوں نے مسئلے پر قابو پانے کے بجائے علحیدگی اختیار کرلی یا طلاق لے لی۔ اس معاملے میں صبر سے کام لینا انتہائی ضروری ہے کیونکہ کچھ جوڑوں کو جنسی تعلق قائم کرنے میں تین سال سے زائد کا عرصہ لگ جاتا ہے۔

ڈاکٹر عمیمہ اختر اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’اگر آپ کا شوہر اس مرحلے پر آپ کا ساتھ نہیں دیتا تو یوں ویجینسمز سے نمٹنا مشکل ہوسکتا ہے۔ میں نے ایسے مریض بھی دیکھے ہیں جن کے شوہر اس مسئلے کو سمجھنے سے قاصر تھے۔

ویجینسمز کے علاج میں میاں بیوی دونوں کا متحرک کردار ہوتا ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ خاتون کا نہیں بلکہ جوڑے کا علاج ہے۔ ایک بار ویجینسمز کا کامیاب علاج ہوجائے تو ڈاکٹرز میاں بیوی کی کاؤنسلنگ کی تجویز دیتے ہیں’۔

33 سالہ حمنہ* کی طلاق اس وقت ہوئی جب وہ 21 سال کی تھیں۔ ’میری کم عمری میں طلاق ہوگئی۔ میری شادی رشتے داروں میں ہوئی تھی اور میرے شوہر مجھ سے عمر میں 11 سال بڑے تھے۔ شادی سے پہلے مجھے مباشرت کے حوالے سے کوئی علم نہ تھا۔ میں نے کبھی بھی مردوں سے بات تک نہیں کی تھی۔

’شادی کی رات میرے شوہر نے میرے ساتھ زبردستی کی، جس سے مجھے بے انتہا تکلیف ہوئی۔ اس کے بعد میں نے کبھی اپنے شوہر کو قریب نہیں آنے دیا کیونکہ میں ٹراما کا شکار ہوگئی تھی۔ جب بھی وہ میرے قریب آتے میں کانپنے لگتی اور رونے لگ جاتی۔ یہ معاملہ اس حد تک بڑھ گیا کہ میرے سسرال والوں کو مداخلت کرنا پڑی۔ 6 ماہ تک ایسا ہوا اور پھر میرے شوہر نے مجھے میرے والدین کے گھر چھوڑ دیا اور مجھے طلاق کے کاغذات بھیج دیے‘۔ اس کے بعد حمنہ نے دوسری شادی نہیں کی۔

شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے

سچ یہ ہے کہ ہمارے یہاں خواتین کا جسمانی مطالعہ ٹھیک سے نہیں کیا جاتا ہے بالخصوص ان کی تولیدی صحت اور جنسی عضو کا تفصیلی جائزہ نہیں لیا جاتا۔ مینوپاز اور حیض سے وابستہ علامات کو ڈاکٹرز نے طویل عرصے سے مسترد کر دیا ہے۔ 19 ویں اور 20 ویں صدی میں ڈاکٹرز کو خواتین کے ہسٹیریا میں دلچسپی تھی جس کی وجہ سے ذہنی مسائل کا شکار خواتین نے خود کو معاشرے سے الگ کرلیا۔ طویل عرصے سے صنفی تعصب کی وجہ سے ہماری تحقیقات پر سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں کیونکہ یہ مطالعات زیادہ تر مرد حضرات پر ہوتے ہیں۔

ویجینسمز اور خواتین پر اس کے جسمانی و نفسیاتی اثرات کے حوالے سے ہمیں ابھی بہت کچھ سیکھنا ہوگا۔ پاکستان جیسا ملک جہاں ذہنی صحت کے لیے خدمات و طبی امداد حاصل کرنے والوں کو مراعت یافتہ سمجھا جاتا ہے، بہت سے لوگ خاموشی اور شرمندگی سے اس سے گزرتے ہیں۔

ویجینسمز ایک خوفناک حالت ہے جس میں مبتلا شخص خود کو تنہا محسوس کرتا ہے اور جب وہ مدد کے لیے کسی سے رجوع کرتا ہے تو انہیں عموماً شرم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

31 سالہ قرۃ* کہتی ہیں، ’میں کلینکل اور جسمانی دونوں تھراپی لے رہی ہوں۔ ایک ماہ پہلے میں خوش تھی کیونکہ میں ’پاپ ٹیسٹ‘ کے لیے نمونہ دینے میں کامیاب رہی لیکن اس کے ایک ہفتے بعد میں نے الٹراساؤنڈ کے لیے آلے کو اپنے جسم میں داخلے کی اجازت نہیں دی۔ میں نے دیکھا ہے کہ کچھ خواتین ویجینسمز پر قابو پا لیتی ہیں لیکن مجھے لگتا ہے سب اپنے طور پر ایسا کرتے ہیں، سب کے حالات ایک جیسے نہیں ہوتے۔ مجھے اپنے اس سفر میں بہت سے اتار چڑھاؤ سے گزرنا پڑا لیکن میں نے خود کو باور کروایا کہ اس حالت کا شکار ہونے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ میں عورت ہونے یا زوجہ کے معیار پر پورا نہیں اترتی۔ اگر میں خود سے ہمدردی نہیں کروں گی تو دیگر افراد بھی مجھ سے ہمدردی نہیں کریں گے‘۔


*رازداری کی غرض سے نام تبدیل کردیے گئے ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ابیر بی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔