پاکستان

لاہور ہائی کورٹ: راولپنڈی بینچ کے دو ججوں کا لاہور اور ملتان تبادلہ

جسٹس جواد حسن کا لاہور اور جسٹس چوہدری عبدالعزیز کا ملتان ٹرانسفر کر دیا گیا، جسٹس بابر ستار آئندہ ہفتے سے مقدمات کی سماعت شروع کریں گے۔

لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ کے دو سینئر ججز کا تبادلہ کر دیا گیا ہے اور انہیں لاہور اور ملتان بینچ کی پرنسپل سیٹ جوائن کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار آئندہ ہفتے سے دوبارہ مقدمات کی سماعت کریں گے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس سے جاری روسٹر کے مطابق جسٹس جواد حسن اور جسٹس چوہدری عبدالعزیز کا بالترتیب لاہور اور ملتان ٹرانسفر کر دیا گیا۔

جسٹس جواد حسن کارپوریٹ اور کمرشل مقدمات کی سماعت کر رہے تھے جبکہ جسٹس عبدالعزیز کو فوجداری معاملات کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، وہ سنیارٹی لسٹ میں بالترتیب 18 اور 20 ویں نمبر پر ہیں۔

ان کی جگہ جسٹس انور حسین اور جسٹس محمد رضا قریشی کو تعینات کیا گیا ہے، یہ جج لاہور ہائی کورٹ کے ججوں کی سنیارٹی لسٹ میں 32ویں اور 35 ویں نمبر پر ہیں۔

دوسری جانب جسٹس بابر ستار 30 اکتوبر سے دوبارہ عدالتی کارروائی کا آغاز کریں گے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے آئندہ ہفتے کے لیے جاری کردہ ڈیوٹی روسٹر کے مطابق جسٹس بابر ستار دستیاب ججوں میں شامل ہیں، وہ ایک ماہ کی چھٹی پر چلے گئے تھے اور اس دوران یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ وہ دوبارہ مقدمات کی سماعت نہیں کریں گے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس ستار 30 اکتوبر کو دوبارہ عدالت میں سماعتوں کا آغاز کریں گے اور یکم نومبر تک کام کریں گے۔

ذرائع کے مطابق جج کے 4 نومبر سے ایک مرتبہ پھر کم از کم 15 دن کے لیے طویل رخصت پر جانے کا امکان ہے۔

ذرائع نے دعویٰ کیا کہ جسٹس بابر ستار عدلیہ سے متعلق آئین میں بعض ترامیم سے خوش نہیں ہیں۔

یہ ترامیم اس ڈرافٹ بل مسودہ کا حصہ تھیں جو ابتدائی طور پر منظر عام پر آیا تھا، جج کو مجوزہ وفاقی آئینی عدالت اور ججوں کے تبادلے پر تشویش تھی تاہم پارلیمنٹ نے ترمیمی بل کی منظوری دی جس میں آئینی عدالت اور ججوں کے تبادلے سے متعلق شقیں شامل نہیں کی گئیں۔

جسٹس بابر ستار ان چھ ججوں میں شامل ہیں جنہوں نے اس سال کے اوائل میں سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک خط بھیجا تھا جس میں انٹیلی جنس اہلکاروں کی جانب سے مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کی تفصیلات درج تھیں، جسٹس بابر ستار آڈیو لیک کیس کی بھی سماعت کر رہے ہیں جس میں ریاستی اداروں پر غیر قانونی طریقے سے شہریوں کی جاسوسی کرنے کا الزام ہے۔

اس کیس کی سماعت کے دوران شہریوں پر نظر رکھنے کے لیے بڑے پیمانے پر نگرانی کے ’قانونی مداخلت کے انتظامی نظام‘ کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا۔

اسی معاملے میں جج نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس شکایت درج کرائی تھی اور نشاندہی کی تھی کہ آڈیو لیکس کیس میں ان کے موقف کی وجہ سے انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

جسٹس بابر ستار نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق سے استدعا کی تھی کہ ان کی اور ان کے خاندان کی ذاتی تفصیلات بشمول ان کے امریکی رہائشی اجازت نامے آن لائن پوسٹ کیے جانے کے بعد وہ توہین عدالت کی کارروائی شروع کریں، جج نے نشاندہی کی کہ ان کے خاندان کے افراد کی رازداری کے حق کی خلاف ورزی کی گئی تھی اور ان کے شناختی کارڈ اور مستقل رہائشی کارڈ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیے گئے تھے۔

اس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کو ہدایت کی تھی کہ وہ ان افراد کے خلاف کارروائی کرے جن کی جسٹس بابر ستار کا ذاتی ڈیٹا سوشل میڈیا پر پھیلانے کے حوالے سے شناخت کی گئی تھی۔