پاکستان

سپریم کورٹ مزید تاخیر کے بغیر نور مقدم کیس کا فیصلہ سنائے، والد کی اپیل

ملزم کے خاندان کی صلح کی پیشکش مسترد کردی، ایسے وحشی کو انجام تک پہنچانااہم ہےتاکہ کوئی اور لڑکی ایسی سفاکیت کا نشانہ نہ بن سکے، مقتولہ کی سالگرہ پر والد کی پریس کانفرنس

اسلام آباد میں 2021 میں ظاہر جعفر کے ہاتھوں بیہمانہ انداز میں قتل کی گئی 27 سالہ نور مقدم کے والد نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے اپیل کی ہے کہ اعلیٰ ترین عدالت میں ڈیڑھ سال سے زائد عرصے سے زیر التوا مقدمے پر فوری سماعت کی جائے۔

ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق سابق سفارت کار شوکت مقدم نے بدھ کو مقتولہ کی سالگرہ کے موقع پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے فوری انصاف کا مطالبہ کیا۔

شوکت مقدم نے دعویٰ کیا کہ ملزم ظاہر جعفر کے خاندان نے صلح کے لیے ان سے رجوع کیا تھا لیکن وہ اس پیشکش کو مسترد کرچکے ہیں، بیٹی کا سر قلم کرنے والے ظاہر جعفر کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسے وحشی کو انجام تک پہنچانا اہم ہےتاکہ ملک میں کوئی اور لڑکی ایسی سفاکیت کا نشانہ نہ بن سکے۔

انہوں نے کہاکہ کوئی کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو اسے کسی کی بیٹی کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ میں یہ کیس ڈیڑھ سال سے التوا کا شکار ہے، یہ ایک اہم کیس ہے جس سے بہت سی لڑکیوں کی زندگیاں جڑی ہوئی ہیں۔

نور مقدم کے والد نے مزید کہاکہ چیف جسٹس آف پاکستان کو یہ مقدمہ ترجیحی بنیاد پر سننا چاہیے تاکہ جعفر کو سزا دی جاسکے اور کوئی دوسرا اس قسم کا فعل کرنے کی جرات نہ کرسکے۔

اس موقع پر سماجی کارکن طاہرہ عبداللہ اور ریما طارق نے کہاکہ سالگرہ خوشیوں سے تعلق رکھتی ہے لیکن نور مقدم کی سالگرہ کا دن ان کے والدین کے لیے اذیت ناک ہوتا ہے، انہوں نے کہاکہ یہ اوپن اینڈ شٹ کیس ہے اور ملزم کے خلاف تمام شواہد موجود ہیں لیکن نامعلوم وجوہات کے باعث یہ مقدمہ ڈیڑھ سال سے التوا کا شکار ہے۔

واضح رہے کہ 27 سالہ نور مقدم 20 جولائی 2012کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے ایک مکان میں قتل کیا گیا تھا بعدازاں اسی روز ملزم ظاہر جعفر کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ ( ایف آئی آر) درج کی گئی تھی جسے جائے وقوعہ سے گرفتار کیا گیاتھا۔

مقتولہ کے والد کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے متن کے مطابق انہیں پتہ چلا کہ ان کی بیٹی کو تیز دھار ہتھیار کی مدد سے بے دردی سے قتل کرنے کے بعد اس کا سرقلم کیا گیا۔

بعدازاں فروری 2022 میں ڈسٹرک اینڈ سیشن جج نے ملزم ظاہر جعفر کو پھانسی کے ساتھ 25 سال قید بامقشت اور 2 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ مقدمے میں بطور شریک ملزمان نامزد گھریلو ملازمین افتخار اور جمیل کو 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، واضح رہے کہ ٹرائل کورٹ نے ملزم کے والدین اور تھراپی سینٹر کے ملازمین سمیت دیگر تمام ملزموں کو بری کردیا تھا۔

مارچ 2023 میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے ملزم کی سزائے موت کو برقرار رکھتے ہوئے 25 سال قید کو ایک سزائے موت میں تبدیل کردیا تھا تاہم اپریل 2023 میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد روکنے کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تھی جو تاحال زیر التوا ہے۔