ملزم کو چھاپے کی ویڈیو ریکارڈنگ تک رسائی کا حق حاصل ہے، لاہور ہائی کورٹ
لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ ملزم کو اپنے خلاف مقدمے میں مبینہ چھاپے کی ویڈیو ریکارڈنگ حاصل کرنے کا حق ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق جسٹس فاروق حیدر اور جسٹس علی ضیا باجوہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے یہ فیصلہ منشیات کے مقدمے کا سامنا کرنے والے اقبال ناصر کی جانب سے دائر اپیل پر سنایا۔
استغاثہ کے مطابق ایک پولیس اہلکار نے اپنے موبائل فون پر درخواست گزار کی گرفتاری سمیت چھاپے کی ریکارڈنگ کی اور اس ویڈیو کو یو ایس بی ڈیوائس پر محفوظ کیا گیا تھا۔
ٹرائل کورٹ نے پہلے اقبال ناصر کی ویڈیو ریکارڈنگ تک رسائی کی درخواست مسترد کر دی تھی تاہم فیصلہ لکھنے والے جسٹس فاروق حیدر نے فیصلہ لکھا جس میں مشاہدہ کیا گیا کہ قانون شہادت آرڈر 1984 کے آرٹیکل 87 کے تحت عوامی دستاویز کا معائنہ کرنے کا حقدار کوئی بھی شخص اس کی کاپی بھی حاصل کرسکتا ہے۔
جسٹس فاروق حیدر نے نوٹ کیا کہ ایک ملزم کو فوجداری ضابطہ اخلاق (سی آر پی سی) کی دفعہ 172 کے تحت تیار کی گئی پولیس ڈائریوں کے سوا پولیس رپورٹ اور اس سے منسلک دستاویزات کا معائنہ کرنے کا حق ہے لہذا ملزم پولیس ڈائری کو چھوڑ کر پولیس رپورٹ میں مذکور یا منسلک کسی بھی دستاویز کی کاپی حاصل کرنے کا حقدار ہے۔
جج نے نشاندہی کی کہ استغاثہ نے تصدیق کی ہے کہ چھاپے کی ویڈیو کو یو ایس بی میں محفوظ کیا گیا تھا جسے تحقیقات کے دوران محفوظ کیا گیا تھا اور الزامات کو ثابت کرنے کے لیے انہیں ثبوت کے طور پر مقدمے کی سماعت کے دوران پیش کیا جانا تھا۔
اس لیے جسٹس فاروق حیدر نے کہا کہ ملزم کو ویڈیو کی کاپی فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ وہ مواد کا جائزہ لے اور جرح سمیت اپنے دفاع کی تیار کر سکے، انہوں نے ٹرائل کورٹ کی جانب سے درخواست مسترد کرتے وقت اس قانونی پہلو کو نظر انداز کرنے پر افسوس کا اظہار کیا۔
بینچ نے اپیل کلو منظور کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کو ہدایت کی کہ وہ اقبال ناصر کو یو ایس بی ریکارڈنگ کی کاپی فراہم کرے۔