جسٹس یحییٰ آفریدی سابقہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے پہلے چیف جسٹس
موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد سپریم کورٹ کے چوتھے سینئر ترین جج جسٹس یحییٰ آفریدی کو خصوصی پارلیمانی پینل کی سفارش پر 30 ویں چیف جسٹس کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اگر جسٹس یحییٰ آفریدی عہدہ قبول کرتے ہیں تو وہ 26 اکتوبر کو صدر آصف علی زرداری سے حلف لیں گے اور اگلے تین سال تک چیف جسٹس رہیں گے۔
پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس، جسٹس یحییٰ آفریدی قانونی برادری میں ایک پیشہ ور، صاف گو اور منصف مزاج جج کے طور پر احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں جو وکلا کے ساتھ کبھی بحث نہیں کرتے۔
ان کی شخصیت کا یہ پہلو فل کورٹ بینچ کی جانب سے مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت کے دوران بھی واضح طور پر نمایاں نظر آیا جب بینچ کے دیگر ارکان وکلا پر سوالات کی بوچھاڑ اور روسٹرم پر کھڑے وکیل کے ساتھ عملی طور پر بحث کر رہے تھے تو جسٹس یحییٰ آفریدی نے ہمیشہ وکلا کو یہ اعتماد بخشا کہ وہ جس انداز میں چاہیں اپنا کیس پیش کریں۔
اپریل 2024 میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے ملک کے انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے عدالتی امور میں مبینہ مداخلت کے حوالے سے کیس سے خود کو الگ کر لیا تھا اور دلیل دی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یا ججوں کے غیرفعال ہونے پر سپریم کورٹ کو آرٹیکل 184(3) کے تحت اپنے دائرہ اختیار کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے اس وقت مشاہدہ کیا تھا کہ اس سے چیف جسٹس اور ججوں کے عدالتی کاموں کی انجام دہی پر اثر پڑ سکتا ہے اور یہ ہائی کورٹس کی آزادی میں مداخلت کے مترادف ہوگا۔
ابتدائی تعلیم اور پیشہ ورانہ زندگی
23 جنوری 1965 کو ڈیرہ اسمٰعیل خان میں پیدا ہونے والے جسٹس آفریدی کا تعلق آفریدی قبیلے کی شاخ آدم خیل سے ہے اور وہ کوہاٹ کے گاؤں بابری بانڈہ کے رہائشی ہیں، وہ عوامی خدمت کی روایت سے جڑے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
جسٹس آفریدی نے اپنی اسکولنگ اور انڈرگریجویٹ ڈگری کے لیے ایچی سن کالج اور گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کی، بعد ازاں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اکنامکس کی سند حاصل کی۔
کامن ویلتھ اسکالرشپ سے نوازے جانے کے بعد جسٹس آفریدی نے کیمبرج یونیورسٹی کے جیسس کالج سے ایل ایل ایم مکمل کیا، اس کے بعد انہیں لندن کے انسٹی ٹیوٹ آف لیگل اسٹڈیز میں ینگ کامن ویلتھ لائرز کے اسکالرشپ پروگرام کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔
انہوں نے پاکستان واپس آنے سے پہلے لندن میں فوکس اینڈ گبنز، سالیسیٹرز میں بطور انٹرن کام کیا اور پھر وطن واپسی پر کراچی میں او آر آر، Dignam & Co سے بطور ایسوسی ایٹ منسلک ہو گئے، انہوں نے اپنی پرائیویٹ پریکٹس پشاور میں شروع کی اور خیبر لا کالج میں لیکچرر بھی رہے جہاں انہوں نے بین الاقوامی قانون، مزدور قانون اور انتظامی قانون پڑھایا۔
ان کا 1990 میں ہائی کورٹ کے ایڈووکیٹ اور 2004 میں سپریم کورٹ کے وکیل کے طور پر اندراج ہوا جہاں انہوں نے عملی طور پر خیبرپختونخوا کے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل اور وفاقی حکومت کے وفاقی وکیل کے طور پر خدمات انجام دیں۔
جسٹس آفریدی کو 2010 میں پشاور ہائی کورٹ میں بطور ایڈیشنل جج تعینات کیا گیا تھا اور 15 مارچ 2012 کو ہشاور ہائی کورٹ کا جج بنانے کی تصدیق کی گئی۔
جب 30 دسمبر 2016 کو انہوں نے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کے عہدے کا حلف اٹھایا تو وہ سابقہ فاٹا اور قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے پہلے جج تھے جو اس عہدے پر فائز ہوئے، انہوں نے 28 جون 2018 کو سپریم کورٹ میں اپنی ترقی تک اسی عہدے پر کام کیا اور اب وہ سابقہ فاٹا سے تعلق پاکستان کی تاریخ کے پہلے چیف جسٹس بن جائیں گے۔