پاکستان

عدالت نے ’ایکس‘ کی بندش سے متعلق وفاقی حکومت سے نئی رپورٹ طلب کرلی

26 ویں آئینی ترمیم آچکی ہے، اب درخواست گزار درخواست سے باہر کوئی بات کر سکتا ہے نہ ہی سوال اٹھا سکتا ہے، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عالیہ نیلم کے ریمارکس

لاہور ہائی کورٹ نے سوشل میڈیا ایپ ’ایکس‘ کی بندش کے خلاف دائر درخواست پر وفاقی حکومت سے نئی رپورٹ طلب کر لی۔

لاہور ہائی کورٹ میں ایکس کی بندش کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی، دوران سماعت چیف جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ 26ویں آئینی ترمیم آچکی ہے، اب درخواست گزار درخواست سے باہر کوئی بات کر سکتا ہے نہ ہی سوال اٹھا سکتا ہے، اب جس نے بھی بات کرنی ہے وہ آرٹیکل 199 اور 199 اے کو سامنے رکھ کر بات کرے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سوشل میڈیا ایپس پر کوئی پابندی ہے، وفاقی حکومت کے وکیل نے جواب دیا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے ایکس پر پابندی کا نوٹی فکیشن موجود ہے۔

عدالت عالیہ نے وفاقی حکومت سے ’ایکس‘ کی بندش پر نئی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے سندھ ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس اب بھی بلاک ہے اور گزشتہ سماعت کے دوران اس کے وکیل کی جانب سے کیا گیا دعویٰ ایک ’غلطی‘ تھی۔

یاد رہے کہ کئی ماہ گزر جانے کے باوجود پاکستان بھر میں مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ایکس سابقہ (ٹوئٹر) کی سروس بحال نہیں ہوسکی ہے۔

پاکستان بھر میں 17 فروری سے ایکس کی سروس معطل ہے اور گزشتہ مہینوں کے دوران متعدد بار اس کی سروس کو جزوی طور پر بحال کیا گیا لیکن مکمل طور پر اسے آپریشنل نہ کیا جا سکا۔

یاد رہے کہ 9 اکتوبر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ بندش کیس میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل ضیا الحق مخدوم کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ایکس نے پاکستان کی جانب سے مواد ہٹانے کی متعدد درخواستوں کو مسترد کر دیا ہے جبکہ ایکس کی ٹیم کی جانب سے جواب دیا گیا کہ مذکورہ مواد ہماری پالیسیوں کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔

سول سوسائٹی کے ارکان کی جانب سے انتخابات کے دوران اور اس سے پہلے سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور انٹرنیٹ سروسز کی معطی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔

سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے دستاویزات کے مطابق مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ’ایکس‘ نے ان درخواستوں کو مسترد کردیا تھا جبکہ ایکس کی تحقیقاتی ٹیم نے یہ واضح کیا کہ مواد ایکس کی پالیسیوں کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔

زیادہ تر کیسز میں ایکس کی انتظامیہ نے مواد ہٹانے کی درخواستوں پر کارروائی کرنے سے انکار کردیا اور اپنی پالیسیوں کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لینے کے لیے اضافی معلومات طلب کیں۔

عدالتی حکم پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل ضیا الحق مخدوم کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ حکومت کی جانب سے کتنی درخواستیں دائر کی گئیں اور ان میں سے کتنی درخواستوں کو ایکس نے منظور کیا۔

رپورٹ میں صرف ایکس کے دیئے گئے جوابات شامل تھے، جس میں اس نے حکومت کی درخواستوں کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اضافی معلومات طلب کیں۔

دستاویزات میں یہ بھی واضح نہیں تھا کہ ایکس کو رپورٹ کی گئی پوسٹس کے بارے میں کتنے ثبوت اور اضافی مواد فراہم کیا گیا تھا۔