پاکستان

مخصوص نشستوں کے فیصلے پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہوسکتی، چیف جسٹس کا اضافی اختلافی نوٹ

8 ججز کا مختصر اور تفصیلی فیصلہ غلطیوں سے بھرپور ہے، کیس کا حتمی فیصلہ ہوا ہی نہیں اس لیے اس پر عملدرآمد 'بائنڈنگ' نہیں، قاضی فائز عیسیٰ اور جمال خان مندوخیل کی رائے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت دو اقلیتی ججوں نے مخصوص نشستوں پر اپنے اضافی اختلافی نوٹ میں قرار دیا ہے کہ کیس کا حتمی فیصلہ ہوا ہی نہیں اس لیے اس پر عملدرآمد ’بائنڈنگ‘ نہیں اور فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کی کارروائی بھی نہیں ہوسکتی۔

ڈان نیوز کے مطابق مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے دو ججز نے اپنا اقلیتی تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اقلیتی تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اقلیتی فیصلے میں 14 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ بھی لکھا ہے۔

چیف جسٹس نے قرار دیا کہ الیکشن کمیشن اور تحریک انصاف کو مختصر حکم نامے کے بعد مناسب درخواستیں دائر کرنے کی اجازت دینے کا مطلب ہے کہ کیس کا نہ ہی حتمی فیصلہ کیا گیا اور نہ ہی نمٹایا گیا، اکثریتی ججز کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے سے توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز بھی نہیں ہو سکتا۔

چیف جسٹس نے فیصلے میں جسٹس جمال خان مندوخیل کی جانب سے 12 جولائی 2024 کو جاری مختصر اختلافی فیصلے کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اکثریتی ججز کی جانب سے جاری فیصلے اور دونوں وضاحتی حکم ناموں میں آئینی خلاف ورزیوں اور غیر قانونی نکات کی نشاندہی کرنا چاہوں گا۔

انہوں نے کہا کہ امید و توقع کرتا ہوں کہ اکثریت میں شامل ساتھی ججز اپنی غلطیوں کی تصحیح کریں گے اور پاکستان کو آئین و قانون کے مطابق چلانے کو یقینی بنائیں گے، بدقسمتی سے مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی مختصر فیصلے کیخلاف نظر ثانی درخواستوں پر سماعت نہ ہوسکی کیونکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں شامل دو ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے نظر ثانی درخواستوں کو سماعت کیلئے مقرر کرنے کی میری رائے کیخلاف ووٹ دیا۔

واضح رہے کہ 12 جولائی کو اپنے مختصر حکم میں سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دیا تھا۔

رواں سال 14 مارچ کو پشاور ہائی کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے متفقہ طور پر سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 13 رکنی فل بینچ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا، فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے لکھا گیا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے درخواستوں کی مخالفت کی تھی۔