پاکستان

لاہور 394 ایئرکوالٹی انڈیکس کے ساتھ ایک بار پھر دنیا کا آلودہ ترین شہر بن گیا

اسموگ کی روک تھام کیلئے پنجاب حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کے مثبت اثرات 8 سے 10 سال میں نظر آئیں گے، سینئر صوبائی وزیر

صوبائی دارالحکومت لاہور ایک بار پھر آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر آگیا ہے، شہر کا ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) خطرناک حد تک بڑھ گیا جو گزشتہ روز 394 اور آج 326 ریکارڈ کیا گیا ۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اے کیو آئی فضا میں موجود آلودہ ذرات کے مقدار کی پیمائش کرتا ہے، جن میں باریک ذرات (پی ایم 2.5)، موٹے ذرات (پی ایم 10)، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ (این او 2) اور اوزون (او 3) شامل ہیں، 100 سے زیادہ اے کیو آئی کو ’مضر صحت‘ جب کہ 150 سے زیادہ کو ’بہت زیادہ مضر صحت‘ سمجھا جاتا ہے۔

بنیادی طور پر فصلوں کی باقیات کو جلانے اور صنعتی اخراج کی وجہ سے پیدا ہونے والےاسموگ کے بحران پر قابو پانے کے لیے پنجاب حکومت کی جانب سے صحت عامہ کے تحفظ کے لیے فوری اور سخت فیصلے کرنے پر مجبور کیا ہے۔

خطرناک اسموگ کی وجہ سے شہر یوں کو بڑے پیمانے پر صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جس میں کھانسی، سانس لینے میں دشواری، آنکھوں میں جلن اور جلد کے انفیکشن شامل ہیں۔

خاص طور پر بچے، بوڑھے، اور وہ افراد جو پہلے سے سانس یا دل کی بیماریوں میں مبتلا ہیں، وہ اس کا زیادہ شکار ہورہے ہیں۔

دریں اثنا، سینئر وزیر پنجاب مریم اورنگزیب نے صوبائی محکمہ زراعت کے ہیڈکوارٹرز میں ایک تقریب کے دوران ’اینٹی اسموگ اسکواڈ‘ کا اجرا کیا۔

اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اینٹی اسموگ اسکواڈ، اسموگ سے پاک پنجاب کی جانب ایک قدم ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ اسکواڈ کاشتکاروں کو فصلوں کی باقیات کو جلانے کے خطرات سے آگاہ کریں گے، سپر سیڈرز کے استعمال کو فروغ دیں گے اور باقیات کو ٹھکانے لگانے کے متبادل طریقے پیش کریں گے جب کہ ان کو اسموگ سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کے لیے گاڑیاں فراہم کی گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ اسکواڈ انتباہ بھی جاری کرے گا اور ضرورت پڑنے پر بروقت کارروائی کرے گا اور فضائی آلودگی میں کردار ادا کرنے والے عوامل کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کرے گا۔

صوبائی وزیر نے کہا کہ اسموگ کی روک تھام کے لیے کیے گئے اقدامات کے مثبت اثرات 8 سے 10 سال میں نظر آئیں گے، صوبے میں ماحولیاتی تحفظ کو نصاب میں بطور مضمون شامل کیا گیا ہے۔

انہوں نے کسانوں پر زور دیا کہ وہ فصلوں کی باقیات کو جلانے سے گریز کریں اور اس بات پر زور دیا کہ ایسا کرنے سے نہ صرف فصلوں بلکہ ان کے بچوں کی صحت کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔