پاکستان

سندھ کے اعتراض کے باوجود چولستان کینال کا منصوبہ ایکنک کو ارسال

حکومت پنجاب کی جانب سے تجویز کردہ 'چولستان کینال اینڈ سسٹمز فیز ون' کے منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 211 ارب 34 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔

سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی( سی ڈی ڈبلیو پی) نے کم ازکم 3 بڑے بین الصوبائی خدشات کے باوجود دلچسپ حکمت عملی اپناتے ہوئے خاموشی سے چولستان کینال منصوبے کے 231 ارب روپے مالیت کے پہلے مرحلے کا فیصلے کرنے کے لیے نیشنل اکنامک کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی ( ایکنک) کو ارسال کر دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی زیر صدارت 12 اکتوبر کو ہونے والے سی ڈی ڈبلیو پی کے اجلاس کے فیصلوں کا اب تک باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا، تاہم ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایکنک کے آئندہ اجلاس میں حکومت سندھ کی جانب سے میگا پروجیکٹ کے حوالے سے اٹھائے گئے اعتراضات اور دفاعی تنصیبات کی منتقلی سے متعلق 19 ارب 50 کروڑ روپے کی مالی لاگت پر گفتگو کی جائے گی۔

اس کے علاوہ ایکنک کو اس بات کا تعین کرنا ہوگا کہ کیا صوبائی سطح پر پانی کے منصوبے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی منظوری کے بغیر آگے بڑھ سکتے ہیں یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی وزیر نے خواہش ظاہر کی کہ منصوبے کی منظوری کے ساتھ سندھ کے اعتراضات ایکنک کے سامنے رکھے جائیں، مزید کہا کہ حکومت پنجاب کی جانب سے تجویز کردہ ’چولستان کینال اینڈ سسٹمز فیز ون‘ کے منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 211 ارب 34 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔

تاہم دفاعی حکام نے یہ بھی بتایا ہے کہ ان کی تنصیبات اور سہولیات کو نہری نظام سے دور منتقل کرنے کے لیے 19.5 ارب روپے کی اضافی لاگت کی ضرورت ہے، جس سے مجموعی لاگت 230.84 ارب روپے ہوگئی ہے۔

عہدیدار نے تصدیق کی کہ مجوزہ منصوبہ گرین پاکستان انیشی ایٹو کا حصہ ہے اور اسے وفاقی حکومت، محکمہ آبپاشی پنجاب، خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) اور پنجاب بورڈ آف ریونیو کی حمایت حاصل ہے تاکہ کارپوریٹ فارمنگ اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے چولستان خطے میں زراعت میں مدد ملے۔

پنجاب کے آبپاشی حکام کے مطابق یہ منصوبہ پنجاب کے چھوٹے خطے چولستان میں پانی کی قلت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک پرعزم انفراسٹرکچر منصوبہ ہے اور اس کا مقصد چولستان کی بنجر اور نیم بنجر زمینوں کو پیداواری زرعی علاقوں میں تبدیل کرنا ہے تاکہ پانی کے بہتر انتظام اور زرعی طریقوں کے ذریعے خطے کی سماجی و اقتصادی حیثیت میں نمایاں اضافہ کیا جاسکے۔

اس منصوبے کا مقصد بنجر زمینوں کو زرخیز زرعی زمینوں میں تبدیل کرنا، زرعی پیداوار میں اضافہ کرنا اور ان علاقوں میں فصلوں کی کاشت کو ممکن بنانا ہے جو پہلے پانی کی کمی کی وجہ سے کاشتکاری کے لیے نامناسب تھے، اس کے علاوہ مؤثر آبپاشی کے بنیادی ڈھانچے اور پانی کی تقسیم کے نظام کے ذریعے کاشتکاری، روزگار اور متعلقہ معاشی سرگرمیوں میں آبادی کے لیے نئے مواقع پیدا کرنا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے خریف سیزن (یعنی اپریل سے ستمبر) کی مدت تک اس منصوبے کے لیے پانی کی دستیابی کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا ہے۔

اس کے علاوہ ایکنک نے فروری میں اربوں روپے مالیت کے ڈیولپمنٹ آف نیشنل ایریگیشن نیٹ ورک فار گرین پاکستان انیشی ایٹو پر غور کیا تھا اور اسے سی سی آئی کی منظوری سے مشروط کیا تھا، جو اگلے آٹھ ماہ میں حاصل نہیں کیا جا سکا تھا۔

گرین پاکستان انیشی ایٹو پلان میں چولستان فلڈ فیڈر کینال،گریٹر تھل کینال (جی ٹی سی)، کچھی کینال کی تعمیر، رینی کینال کی تعمیر، تھر کینال کی تعمیر اور چشمہ رائٹ بینک کینال کی تعمیر بھی شامل ہے۔

سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ دفاعی تنصیبات کی منتقلی کی لاگت کے تخمینے میں 19.5 ارب روپے کی اضافی رقم 211 ارب روپے کے اعداد و شمار میں شامل نہیں کیا، حکومت پنجاب نے تجویز دی کہ یہ اضافی لاگت وفاقی حکومت کی ذمے ہوگی۔

مزید بتایا گیا کہ حکومت سندھ نے ارسا کے لیے مشترکہ مفادات کونسل کو پانی کی دستیابی کا سرٹیفکیٹ روکنے کے لیے باضابطہ سمری بھی جمع کرا دی تھی، مزید کہا کہ سی سی آئی کے فیصلے کا ابھی انتظار ہے، لہٰذا یہ منصوبہ سی سی آئی کی منظوری سے مشروط ہونا چاہیے۔

محکمہ آبپاشی پنجاب کا مؤقف ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم کی تکمیل سے پانی ذخیرہ کرنے کی موجودہ صلاحیت سے زیادہ اضافی پانی دستیاب ہوگا۔

اس منصوبے کے لیے پنجاب کے سالانہ ترقیاتی منصوبے میں سے رواں مالی سال کے دوران 42.3 ارب روپے درکار ہوں گے، اس کے بعد مالی سال 26-2025 میں 51 ارب روپے، 27-2026 میں 49 ارب روپے، 28-2027 میں 38 ارب روپے اور 29-2028 میں تقریباً 32 ارب روپے کی ضرورت ہوگی، لیکن اس میں دفاعی حکام کی طرف سے اٹھائے گئے 19.5 ارب روپے کا مطالبہ شامل نہیں تھا۔

واضح رہے کہ حکومت سندھ نے پنجاب میں 200 ارب روپے سے زائد کے نئے آبپاشی منصوبے کی منظوری پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا، پانی کی تقسیم کے معاملے پر دونوں صوبے متعدد بار آمنے سامنے آچکے ہیں، اس منصوبے کے سبب اس تنازع میں مزید اضافے کا امکان ہو سکتا ہے۔