نقطہ نظر

اداریہ: 26ویں آئینی ترمیم منظور، ’کیا طوفان ٹل چکا ہے؟‘

حکومت کا کام تھا کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے پیدا کرتی مگر اس کے لیے انہیں کئی دن یا ہفتے لگ جاتے ۔

کیا طوفان ٹل چکا ہے؟ یہ تو ہمیں آنے والے دن بتائیں گے۔ بلآخر اتوار کی شب حکومتی اتحاد کے متنازع آئینی پیکج کو سینیٹ نے منظور کرلیا جس کے ساتھ ہی اس کی شقوں پر ہفتوں سے جاری بحث اور مذاکرات بھی اپنے اختتام کر پہنچے۔ جس لمحے یہ اداریہ لکھا جارہا تھا اس وقت قومی اسمبلی سے اس آئینی پیکج کی منظوری لینا باقی تھی۔

اس سے پہلے ترامیم کو منظور کروانے کی ناکام کوشش کے بعد، کل جو مسودہ پیش کیا گیا وہ پہلے کے مقابلے میں کافی حد تک تبدیل شدہ تھا۔ حتیٰ کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) جس نے ترامیم کے لیے ووٹنگ کے عمل کا بائیکاٹ کرکے تجاویز فراہم کرنے کے اہم موقع کو گنوا دیا، اس نے بھی اعتراف کیا کہ یہ آئینی مسودہ ابتدائی طور پر پیش کیے جانے والے مسودے سے ’قدرے بہتر‘ ہے۔

سینیٹ میں پارٹی کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے اس ’کامیابی‘ پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی کاوشوں کی تعریف کی، البتہ انہوں نے ججوں کے انتخاب اور اعلیٰ عدلیہ میں اہم تقرریوں کے نئے عمل پر اپنی پارٹی کے تحفظات کو برقرار رکھا۔

گزشتہ شب پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کیے جانے والے بل میں 22 ترامیم شامل تھیں جوکہ گزشتہ ماہ پیش کیے جانے والے مسودے میں 50 شقوں سے نصف سے بھی کم ہیں۔ یہ تبدیل شدہ مسودہ کافی حد تک قابلِ قبول تھا جبکہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اگر ووٹنگ کا عمل چند دن بعد کیا جاتا تو وہ بھی اس میں حصہ لیتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ انہیں چند معاملات کے حوالے سے جیل میں قید اپنے پارٹی قائد سے مشاورت کرنے کی ضرورت تھی۔

مسودے کے حوالے سے سب سے پہلا خیال یہی تھا کہ ترامیم سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کو متنازع بنا دیتیں کیونکہ یوں اس عمل میں حکومت کا کردار اہم ہوجاتا۔ عدالت عظمیٰ کے اندر اور ریاست کی مختلف شاخوں میں طویل عرصے سے جاری تنازعات اور تقسیم کے درمیان، ان آئینی ترامیم کی وجہ سے حکومت اور عدلیہ میں مزید ایک نیا تنازع کھڑا ہوسکتا ہے۔ اب وکلا برادری اس پر کیا ردعمل دیتے ہیں، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔

ایک خدشہ جو بدستور موجود ہے وہ یہ ہے کہ حکمران اتحاد نئے ’آئینی بینچ‘ میں اپنی پسند کے ججوں کی تقرری کے لیے ترامیم کا غلط استعمال کرنے کی کوشش کرسکتا ہے یا وہ اپنے ’ہم خیال‘ جج کو چیف جسٹس کے عہدے پر فائز کرنے کی کوشش بھی کرسکتا ہے۔

شاید تحریک انصاف کو ان ترامیم کے بنیادی مخالف کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری زیادہ سنجیدگی سے لینی چاہیے تھی۔ انہیں عمل کو ’منصفانہ‘ بنانے کے لیے متبادل خیالات یا تجویز کردہ تبدیلیاں پیش کرنی چاہیے تھیں۔ اگر پی ٹی آئی کی تجاویز مسترد بھی ہوجاتیں تب وہ کم از کم یہ دعویٰ کرسکتے تھے کہ انہوں نے دیگر آپشنز پیش کیے تھے۔

تاہم یہ حکومت کا کام تھا کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے پیدا کرتی لیکن اس کے لیے انہیں کئی دن یا ہفتے لگ جاتے لیکن انہیں یہی راستہ چُننا چاہیے تھا۔ اس کے بجائے حکومت نے ایک سخت ڈیڈلائن مقرر کی جس میں رہ کر انہوں نے ترامیم سے متعلق کام کیا جوکہ شاید اس لیے تھا کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ میں ہونے والی بڑی تبدیلی سے قبل وہ اس معاملے کو نمٹا دیں۔

تاہم ابھی ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ آنے والے دنوں میں اس معاملے سے متعلق کیا پیش رفت ہوتی ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

اداریہ