پاکستان

سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی نے بھی 26ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کرلی

اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں مبینہ طور پر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد اراکین عثمان علی، مبارک زیب خان، ظہورقریشی، اورنگزیب کھچی نے آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دیا۔

ایوان بالا (سینیٹ) کے بعد 26ویں آئینی ترمیمی بل ایوان زیریں (قومی اسمبلی) سے بھی دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور ہو گیا، جس کے بعد ایک مہینے سے جاری سیاسی مذاکرات کا عمل پیر کی صبح اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔

اتوار کی شام 6 بجے طلب کیا گیا قومی اسمبلی کا اجلاس کئی گھنٹے تاخیر کے بعد رات ساڑھے 11بجے اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا جسے تقریباً رات 11 بج کر 58 منٹ پر ملتوی کر دیا گیا، اس کے بعد اجلاس کا دوبارہ آغاز 12 بج کر 5 منٹ پر ہوا اور یہ پیر کی صبح سوا 5 بجے تک جاری رہا۔

یاد رہے کہ دو روز قبل (19 اکتوبر) کو قومی اسمبلی کے اجلاس کا وقت متعدد بار تبدیل کیا گیا تھا، پہلے اجلاس رات 7، پھر ساڑھے 9 بجے، بعد میں اجلاس رات گئے شروع اور بغیر کسی کارروائی کے ملتوی کر کے20 اکتوبر (اتوار) کی شام 6 بجے طلب کیا گیا۔

سرکاری [ریڈیو پاکستان][1] کے مطابق آئین پاکستان کے آرٹیکل 75 کے تحت وزیراعظم پاکستان نے منظور کردہ 26 ویں آئینی ترمیمی ایکٹ 2024 کی سمری کو دستخط کے لیے صدر پاکستان کو بھیج دیا ہے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ترمیم پیش کرنے کی تحریک پیش کی، تحریک کی منظوری کے لیے 225 اراکین اسمبلی نے ووٹ دیے جبکہ 12 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا۔

اس کے بعد ترمیم کی شق وار منظوری دی گئی، مبینہ طور پر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ 4 آزاد ارکین نے آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دیا، عثمان علی، مبارک زیب خان، ظہورقریشی، اورنگزیب کھچی اور مسلم لیگ (ق) کے چوہدری الیاس نے ترامیم کےحق میں ووٹ دیا۔

حکمران اتحاد کے 215 میں سے 213 ارکان نے ووٹ کیا، عادل بازئی کے علاوہ اتحادی جماعتوں کے تمام ایم این ایز نے ووٹ دیا، اجلاس کی صدارت کے باعث اسپیکر قومی اسمبلی نے اپنا ووٹ نہیں دیا، جے یو آئی (ف) کے 8 ارکان نے ووٹ دیا۔

بعد ازاں اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے حق میں 225 ووٹ دیے گئے۔

ترمیم کی منظوری کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے ایوان میں مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی، شہباز شریف نے ایوان میں موجود بیرسٹر گوہر اور اسد قیصر سے بھی ملاقات کی۔

واضح رہے کہ قومی اسمبلی اجلاس شروع ہونے سے کچھ دیر قبل چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت سینیٹ کے اجلاس میں 26ویں آئینی ترمیمی بل 2 تہائی اکثریت سے منظور کرلیا گیا تھا۔

چیرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ سینیٹ کے 65 ارکان نے 26ویں آئینی ترمیمی بل کے حق میں ووٹ دیا جب کہ سینیٹ کے 4 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا۔

کاش پی ٹی آئی بھی ترمیم کی منظوری میں شامل ہوتی، وزیر اعظم

بل کی منظوری کے بعد ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ ملک میں لوگ انصاف کے لیے ترس رہے ہیں، آج ایک تاریخی دن ہے، قومی یکجہتی اور اتفاق رائے کی شاندار مثال ایک بار پھر قائم ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج آئین میں 26 ویں ترمیم ہوئی ہے، حکومتوں کو گھر بھیجا جاتا تھا، وزرائے اعظم کو گھر بھیجا جاتا تھا، قومی یکجہتی اور اتفاق رائے کی شاندار مثال ایک بار پھر قائم ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ آج آئین میں 26ویں ترمیم ہوئی، ایک پاناما تھا جو ختم ہوگیا اقامہ پر سزا دی گئی، آج میثاق جمہوریت کا ادھورا خواب پایہ تکمیل کو پہنچ گیا، ماضی میں جو ہوا اب کسی وزیراعظم کو گھر نہیں بھیجا جاسکے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ آئینی ترمیم بل کی منظوری پر تمام جماعتوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، کاش پی ٹی آئی بھی اس میں شامل ہوتی تو بہت اچھا ہوتا۔

وزیراعظم کے خطاب کے بعد اسپیکر نے قومی اسمبلی کا اجلاس بروز منگل شام 5 بجے تک ملتوی کردیا۔

حکومت کو بل کی منظوری کرانے اور اسے قانون بنانے کے لیے 224 ووٹ درکار تھے۔

حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی قومی اسمبلی میں 111، پیپلزپارٹی کی 69 نشستیں ہیں، ایم کیو ایم پاکستان کی 22، مسلم لیگ (ق) 5، استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے 4 اراکین ہیں جب کہ مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے ایک ایک رکن ہے۔

حکمران اتحاد کے 3 افراد کے خلاف ریفرنس دائر ہے، اس طرح یہ تعداد 211 ہے اور جے یو آئی (ف) کے 8 اراکین کی حمایت کے بعد بھی یہ تعداد 219 ہوگی اور حکومت کو دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئینی ترمیم پاس کروانے کے لیے مزید 5 ارکان کی ضرورت تھی۔

وزیر قانون نے 26 ویں آئینی ترمیم کی تحریک پیش کی

قبل ازیں قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیم کی تحریک پیش کی، اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2006 میں میثاق جمہوریت کا معاہدہ ہوا، اس معاہدے کے بہت سارے نکات پر عمل ہوگیا۔

انہوں نے کہا کہ بازو دبا کے 19 ویں ترمیم کروائی گئی، ہم نے 8 صفر سے کچھ تعیناتیاں ریجیکٹ کیں، ہماری سفارشات کو پرے پھینکا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم میں وزیراعظم، بلاول بھٹو زرداری سمیت سب نے کام کیا، خورشید شاہ نے خصوصی کمیٹی کی سربراہی کی، میں تمام اتحادیوں کا شکریہ ادا کروں گا، مولانا فضل الرحمٰن کا کردار بھی قابل تحسین رہا۔

اجلاس کے دوران جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن قومی اسمبلی میں پہنچے جہاں انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف سے مصافحہ کیا۔

وزیر قانون نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تین سینئر موسٹ ججز میں سے پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کی نامزدگی کرے گی، کچھ ترامیم جے یو آئی کی طرف سے پیش کی گئیں، ان ترامیم کو حکومتی اتحاد نے سینیٹ میں سپورٹ کیا، آرٹیکل 81 میں کچھ ترامیم کی گئیں۔

اعظم نذیر نے کہا کہ تین 3 سینئر ترین ججز میں سے پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کی نامزدگی کرےگی، کچھ ترامیم جے یو آئی کی طرف سے پیش کی گئیں، ان ترامیم کو حکومتی اتحاد نے سینیٹ میں سپورٹ کیا، آرٹیکل 81 میں کچھ ترامیم کی گئیں۔

وزیر قانون کی جانب سے 26 ویں آئینی ترمیم کی تحریک پیش کیے جانے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس کو کچھ دیر کے لیے ملتوی کردیا۔

آئینی ترمیم کی منظوری میں سب سے زیادہ کردار فضل الرحمٰن کا ہے، بلاول بھٹو

بعد ازاں اسپیکر ایازصادق کی صدارت میں قومی اسمبلی کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ آئینی ترمیم کی منظوری میں سب سے زیادہ کردار فضل الرحمٰن کا ہے، سیاست میں آصف زرداری کے بعد مولانا فضل الرحمٰن کو مانتا ہوں، مولانا فضل الرحمٰن کا اہم کردار ہے یہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ بل میں سب سے زیادہ میری محنت نہیں، مولانا فضل الرحمٰن کی ہے، میثاق جمہوریت پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے دستخط کیے، بے شک اپوزیشن اس بل کو ووٹ نہ دیں یہ ان کا حق ہے، ہمارے بھائی ووٹ دیں یا نہیں ان کی بھی سیاسی کامیابی ہے، 18 ویں ترمیم کے وقت آئین سے آمر کے کالے قوانین نکالے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ بےشک اپوزیشن اس بل کو ووٹ نہ دیں یہ ان کا حق ہے، ہمارے بھائی ووٹ دیں یا نہیں ان کی بھی سیاسی کامیابی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم میں وفاق کے وسائل صوبوں کے ساتھ شیئر کیے گئے، اس طرح آج عدالت کے اختیارات کو بھی برابری کی سطح پر لا رہے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کیا ہم بھول چکے ہیں کہ عدالت کی تاریخ کیا ہے، اس طرح آج عدالت کے اختیارات کو بھی برابری کی سطح پر لا رہے ہیں، ہماری عدالت کا جمہوریت، آئین کا تحفظ اور آمریت کا راستہ روکنا تھا، ڈکٹیٹرشپ کی کامیابی میں صف اول کا کردار تو عدالت کا رہا ہے۔

چیئرمین پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ کہ جنرل (ر) مشرف نے ملک پر راج کیا تو ان کو اجازت عدالت نے دی، یونیفارم میں صدر کا الیکشن لڑنے کی اجازت بھی عدالت نے دی، ڈکٹیٹرشپ کی کامیابی میں صف اول کا کردار تو عدالت کا رہا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اپوزیشن کے دوست کالے سانپ کی بات کر رہے ہیں، میری نظر میں اس آئین کے لیے کالا سانپ افتخار چوہدری ہے، آپ ہمارے وزیراعظم کو انصاف نہ دلا سکے، ہم نے عدم اعتماد کو جائز طریقہ سمجھا، عدالت غیر آئینی طریقے سے ہم سے اختیار چھینتی ہے، قائد اعظم محمد علی جناح نے آئینی عدالت کی بات کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے عدم اعتماد کو جائز طریقہ سمجھا، عدالت غیر آئینی طریقے سے ہم سے اختیار چھینتی ہے، ایک وزیراعظم کو خط نہ لکھنے پر فارغ کردیا گیا، کالے سانپ نے ایک نہیں کئی وزرائے اعظم کو فارغ کرایا، جسٹس دراب پٹیل پی سی او کا حلف لیتا تو چیف جسٹس بنتا، جسٹس دراب پٹیل نے بھی آئینی عدالت کی تجویز دی۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہم نے کہا کہ عدالتی اصلاحات ہونی چاہیں تو افتخار چوہدری نے اٹھارویں ترمیم پھینک دی، آئینی عدالت کی سوچ آج کی نہیں بلکہ یہ بحث قائد اعظم محمد علی جناح سے شروع ہوئی۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی (ف) کے مطالبے پر آئینی عدالت چھوڑ کر آئینی بینچ بنانے جا رہے ہیں، افتخار چوہدری کی بلیک میلنگ میں 19 ویں ترمیم منظور کی گئی، آئینی عدالت کی سوچ آج کی نہیں بلکہ یہ بحث قائد اعظم محمد علی جناح سے شروع ہوئی، 2022 میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں بھی آئینی عدالت کی حمایت کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ رضار بانی نے اُسی کانفرنس میں کہا کہ آئینی عدالت نہیں تو آئینی بینچ دیا جائے، قائداعظم کے دور سے جو سوچ چلی آرہی ہے ہم وہ آج پوری کرنے جارہے ہیں، پوری دنیا میں ایسی مثال نہیں کہ جج جج کو لگائے اور ہٹائے، کہتے ہیں پارلیمان کون ہوتا ہے، ہم عوام کے نمائندے ہیں، جب بینظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں، ان سے برداشت نہیں ہورہا تھا کہ بینظیر بھٹو جج کی تعیناتی کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ اختیار وزیر اعظم سے چوری کرکے جیب میں رکھا، آئین کے چیمپئنز نے مشرف کے دور میں حلف لیا۔

یہ ووٹ کو عزت دو سے بوٹ کو عزت دو کا سفر ہے، عمر ایوب

بلاول بھٹو کے بعد قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ ووٹ کو عزت دو سے بوٹ کو عزت دو کا سفر ہے، آپ ایک ارب سے تین ارب فی ایم این اے کا فقرہ بولتے، آپ نامعلوم لوگوں کا شکریہ بھی دا کرتے، آپ ان لوگوں کے ڈالوں کا بھی شکریہ ادا کرتے۔

انہوں نے کہا کہ یہ پورا پراسس بدبودار پراسس ہے، آپ آزاد عدلیہ کو ختم کرنے جارہے ہیں، یہ حکومت چوری شدہ مینڈیٹ کے ساتھ یہاں بیٹھی ہے، آپ آزاد عدلیہ کو ختم کرنے جارہے ہیں، یہ اسمبلی ترمیم کا مینڈیٹ نہیں رکھتی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام فارم 47 کی حکومت کا مینڈیٹ تسلیم نہیں کرتے، آئینی ترمیم کے ذریعے یہ آزاد عدلیہ کو ختم کرنے جا رہے ہیں، یہ اسمبلی ترمیم کا مینڈیٹ نہیں رکھتی، پاکستانی عوام فارم 47 کی حکومت کا مینڈیٹ تسلیم نہیں کرتے، ہمارے 5 لوگوں کو زد و کوب کرکے رکھا گیا ان کا بھی شکریہ ادا کرتے۔

عمر ایوب نے کہا کہ اسپیشل کمیٹی کا مقصد پارلیمینٹرین کے حقوق کا تحفظ کرنا تھا، پارلیمنٹیرین کےحقوق کا تحفظ کرنے والی اس کمیٹی کاغلط استعمال کیا گیا، اسپیشل کمیٹی کا مقصد پارلیمنٹرین کے حقوق کا تحفظ کرنا تھا، پارلیمنٹیرین کےحقوق کا تحفظ کرنے والی اس کمیٹی کاغلط استعمال کیاگیا۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ خصوصی کمیٹی کا غلط استعمال کیا گیا، آئینی ترمیم کا مسودہ قائمہ کمیٹی قانون و انصاف میں جانا چاہیے تھا، کیا جلدی تھی کہ رات کو اس وقت اجلاس ہو رہا ہے، خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں وزیر قانون کو مسودے کا پتہ نہیں ہوتا تھا، مبارک زیب یہاں پر بیٹھا ہوا اس کا بھائی پی ٹی آئی کا ورکر تھا، ظہور قریشی کو یہاں لایا گیا، زین قریشی، مقداد حسین کو غائب کیا گیا ، عادل بازئی کا پلازہ مسمار کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کو نامعلوم کالز آتی ہیں اور دھمکایا جاتا ہے، اسپیکر ایاز صادق اور اپوزیشن لیڈر عمرایوب میں تکرار ہوئی، اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ صرف آئینی ترمیم پر بات کریں، عمرایوب نے کہا کہ بات کرنا ہمارا حق ہے روکنا برداشت نہیں کریں گے، آئینی ترمیم کا حصہ نہیں بنیں گے، خیبرپختونخوا ہاؤس پر کس قانون کے تحت پولیس آئی، آپ نے وفاق کو کمزور کردیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ باعزت طریقے سے ریٹائر ہو رہے ہیں، خواجہ آصف

عمر ایوب کے بعد وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں سب سے پہلے آئین پر ڈاکا 1958 میں پڑا، پاکستان میں 1958 میں پہلا آئینی حادثہ ہوا، اس ملک میں سب سے پہلے آئین پر ڈاکا 1958 میں پڑا، پاکستان میں 1958 میں پہلا آئینی حادثہ ہوا۔

خواجہ آصف نے کہا کہ آئین کی بات کرنے والوں کو تاریخ پر نظر ڈالنی چاہیے، آئین کی بات کرنے والوں کو تاریخ پر نظر ڈالنی چاہیے، سیاستدانوں نے بہت سی قربانیاں دی ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ باعزت طریقے سے ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 26 ویں ترمیم کا واحد مقصد اس ایوان کے وقار اور عظمت کو بحال کرنا ہے، جسٹس فائز عیسیٰ واحد ہیں جنہوں نے عدلیہ کی عزت بحال کی، سیاست دانوں نے بہت سی قربانیاں دی ہیں، 26 ویں آئینی ترمیم کو سینیٹ نے منظور کرلیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 26ویں ترمیم کا واحد مقصد اس ایوان کے وقار اور عظمت کو بحال کرنا ہے، 26ویں آئینی ترمیم کو سینیٹ نے منظور کرلیا، ہم اس آئینی ترمیم کے ذریعے ایوان کو بااختیار بنارہے ہیں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ہم میثاق جمہوریت کی اصل روح کو بحال کررہے ہیں، بانی پی ٹی آئی اور مولانافضل الرحمٰن کے بھی میثاق جمہوریت پر دستخط ہیں، اس ایوان کی تمام پارٹیوں کے میثاق جمہوریت پر دستخط ہیں، عدلیہ میں 26 لاکھ کیسز زیرالتوا ہیں، دنیا میں 144 ویں نمبر پر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کے 17، 18 لوگ آسمان سے آئے کہ احتساب نہیں ہوسکتا، اتنا آزاد نہیں کرنا چاہیے تھا کہ وہ ہماری آزادی چھین لیں، قید سیاستدان کاٹیں، شہید سیاستدان ہوں، احتساب بھی سیاستدان بھگتیں، ہم اس آئینی ترمیم کے ذریعے ایوان کو بااختیار بنا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم میثاق جمہوریت کی اصل روح کو بحال کررہے ہیں، بانی پی ٹی آئی اور مولانا فضل الرحمٰن کے بھی میثاق جمہوریت پردستخط ہیں، اس ایوان کی تمام پارٹیوں کے میثاق جمہوریت پر دستخط ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ میں 26 لاکھ کیسز زیرالتوا ہیں، دنیا میں 144 ویں نمبر پر ہے، عدلیہ کے 17، 18 لوگ آسمان سے آئے کہ احتساب نہیں ہوسکتا۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ترمیم سے17لوگوں سےغیرآئینی طاقت لے کر 24 کروڑ کے نمائندوں کو منتقل کر رہے ہیں، کیا ایسا ہوسکتا ہے 8 لوگ بیٹھ کر پارلیمان کو یرغمال بنالیں، اداروں کی عزت ان میں بیٹھے شخصیات سے ہوتی ہے، آج عدلیہ کو ڈرائی کلین کیا جارہا ہے تو اس کی بھی وجہ ہے۔

نواز شریف کا عدلیہ کے کردار پر شعر

خواجہ آصف کی تقریر کے بعد مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے کہا کہ ’میں چاہتا تھا کہ خواجہ صاحب اپنی تقریر کے اختتام پر ایک چھوٹا سا شعر پڑھ دیں،جو میں لکھ کر انہیں دینا چاہ رہا تھا لیکن انہوں نے جلدی سے اپنی تقریر ختم کردی‘۔

نواز شریف نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’عدلیہ کے ہاتھوں جو دکھ ہم نے اٹھائے ہیں تو عدلیہ کے کردار پر ایک شعر ہے‘، پھر انہوں نے یہ شعر پڑھا؛

ناز و انداز سے کہتے ہیں کہ جینا ہوگا
زہر بھی دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پینا ہوگا
جب میں پیتا ہوں تو کہتے ہیں کہ مرتا بھی نہیں
جب میں مرتا ہوں تو کہتے ہیں کہ جینا ہوگا

عمران خان پر ہونے والی سختیوں کی مذمت کروں گا، مولانا فضل الرحمٰن

خواجہ آصف کی تقریر ختم ہونے کے بعد جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے میاں نواز شریف کے شعر پڑھنے پر ازراہ تفنن کہا’ نواز شریف نے جو شعر پڑھا ہے وہ بڑا برموقع اور بر محل پڑھا ہے مگر شعر پڑھتے وقت وزن کا خیال رکھنا ہوتا ہے،اور پھر انہوں نے نواز شریف کے پڑھے ہوئے شعر میں وزن کی ایک غلطی نکالی جس پر ایوان قہقہوں سے گونج اٹھا۔

بعد ازاں ایوان سے اپنے خطاب میں مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ میری تقریر تنقید کے بدلے نہیں تعریف پر مبنی ہوگی، میثاق جمہوریت میں آئینی عدالت کا بھی تذکرہ تھا، میثاق جمہوریت مشکل میں رہنمائی کے لیے ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ آئین مقدم ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی مدت ملازمت میں اضافہ کردیا جائے، میری تقریر تنقید کے بدلے نہیں تعریف پر مبنی ہوگی، سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی مدت ملازمت میں اضافہ کردیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب بات آئین کی آئے تو ہم سب کی نظر میں اس کی حیثیت میثاق ملی کی ہے، آج کی آئینی ترامیم پیش کرنے پر بلاول بھٹو کو بھرپور خراج تحسین پیش کرتا ہوں، میاں نواز شریف اور وزیراعظم شہباز شریف کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، ان کاوشوں میں میرے ساتھ تحریک انصاف بھی شامل رہی۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں جب نواز شریف، شہباز شریف اور آصف زرداری کے ساتھ کی گئی زیادتیوں پر آواز اٹھائی، تو میں آج بانی پی ٹی آئی عمران خان پر ہونے والی سختیوں کی مذمت کروں گا۔

ایک با اختیار، مؤثر بلدیاتی نظام ہی جمہوریت کو مضبوط بناسکتا ہے، فاروق ستار

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ کے بعد اب ہم 26 ویں ترمیم قومی اسمبلی سے پاس کروانے کی پوزیشن میں ہیں، ملکی استحکام کے لیے آئینی ترمیم کا ساتھ دے رہے ہیںِ، سینیٹ کے بعد اب ہم 26 ویں ترمیم قومی اسمبلی سے پاس کروانے کی پوزیشن میں ہیں، ملکی استحکام کے لیے آئینی ترمیم کا ساتھ دے رہے ہیںِ۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام کو مسائل سے نجات دلانی ہے، جتنی بھی ترامیم کرلیں لیکن ہمیں اپنی آئینی تاریخ کو بھی دیکھنا ہوگا، قیام پاکستان کے بعد آئین بنانے میں ہمیں 9 سال لگے، ہمیں مہنگائی اور بے روزگار ختم کرنا ہوگی، ایک باختیار، مؤثر بلدیاتی نظام ہی جمہوریت کو مضبوط بناسکتا ہے، بااختیار بلدیاتی نظام کو مؤثر بنایا جائے، پاکستان کے عوام کو مسائل سے نجات دلانی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جتنی بھی ترامیم کرلیں لیکن ہمیں اپنی آئینی تاریخ کو بھی دیکھنا ہوگا، قیام پاکستان کے بعد آئین بنانے میں ہمیں 9 سال لگے، ہمیں مہنگائی اور بے روزگار ختم کرنا ہوگی، ایک بااختیار، موثر بلدیاتی نظام ہی جمہوریت کو مضبوط بناسکتا ہے، بااختیار بلدیاتی نظام کو موثر بنایا جائے۔

آج پاکستانی آئینی تاریخ اور عدلیہ کیلئے سیاہ دن ہے، بیرسٹر گوہر

پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترمیم کے بعد عدلیہ کو ہمیشہ کے لیے محکوم بنایا جائے گا، پاکستان کی آزاد عدلیہ کو حکومتی نمائندگان نے آج جتنی تنقید کا نشانہ بنایا، میاں صاحب نے جو شعر پڑھا اس سے عدلیہ کی توہین ہوئی، اس پر مذمت کرتے ہیں، آئینی ترمیم کے بعد عدلیہ کو ہمیشہ کے لیے محکموم بنایا جائے گا، آج پاکستانی آئینی تاریخ اور عدلیہ کے لیے سیاہ دن ہے، یہ چاہتے ہیں ہر عدالت ان کے ماتحت ہو۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ یہ چند کیسز کی بنیاد پر آئینی بینچ بنا رہے ہیں، وزیراعظم پہلی بار ججز کی تقرری کرے گا، یہ کمیٹی بنی تو خورشید شاہ کے ساتھ بھی دھوکا ہوا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف پارلیمنٹ پہنچ گئے

قبل ازیں اجلاس میں شرکت کے لیے مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف پارلیمنٹ پہنچے جہاں وزیراعظم شہباز شریف نے میاں نواز شریف کا استقبال کیا، اس موقع پر حمزہ شہباز شریف بھی میاں نواز شریف کے ہمراہ موجود تھے۔

قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن بھی پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منصور علی شاہ دونوں قابل احترام ہیں، دونوں ججز کو متنازع نہیں بنایا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے اور آخری مسودے میں زمین آسمان کا فرق ہے، یہ ایک مہینے کی جدوجہد ہے، مسودے میں جو کمزویاں ہمیں نظر آئیں، انہیں نکال دیا۔

واضح رہے کہ قومی اسمبلی اجلاس شروع ہونے سے کچھ دیر قبل چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت اجلاس میں ملک کے ایوان بالا نے 26ویں آئینی ترمیمی بل 2 تہائی اکثریت سے منظور کرلیا تھا۔

چیرمین سینیٹ نے کہا تھا کہ سینیٹ کے 65 ارکان نے 26ویں آئینی ترمیمی بل کے حق میں ووٹ دیا جب کہ سینیٹ کے 4ارکان نے 26ویں آئینی ترمیمی بل کے خلاف ووٹ دیا۔

سینیٹ نے 26ویں آئینی ترمیم کی دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظوری دے دی

آئینی ترمیم کے متن پر جھگڑا نہیں رہا، ووٹنگ میں حصہ نہ لینا پی ٹی آئی کا حق ہے، فضل الرحمٰن

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری تین سینئر ترین ججوں میں سے کی جائے گی، وزیر قانون