پاکستان

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری تین سینئر ترین ججوں میں سے کی جائے گی، وزیر قانون

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری تین سال کے لیے کی جائے گی، حکومتی اور اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ اور سینیٹ پر مشتمل کمیٹی دو تہائی اکثریت سے چیف جسٹس کا نام فائنل کر کے وزیراعظم کو بھیجے گی، اعظم نذیر تارڑ۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کا مسودہ متفقہ ہے، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری تین سال کے لیے کی جائے گی، یہ تقرری تین سینئر ترین ججوں میں سے کی جائے گی اور حکومتی اور اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ اور سینیٹ پر مشتمل 12رکنی کمیٹی دو تہائی اکثریت سے چیف جسٹس کا نام فائنل کر کے وزیراعظم کو بھیجے گی۔

وفاقی وزیر قانون نے آئینی ترمیم کی کابینہ کی منظوری کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تمام پارلیمانی لیڈروں نے مختلف اوقات میں ملاقاتیں کیں، خورشید شاہ صاحب نے اسپیکر کی ہدایت پر بنائی گئی خصوصی کمیٹی میں معاملات کو بہت تحمل سے دیکھا اور اس ساری کاوش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی انتھک محنت اور کاوشیں شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو نے ناصرف اتحادی جماعتوں سے رابطہ کیا بلکہ دونوں جانب روابط کا سلسلہ جاری رکھا، جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے بھی مسلسل رابطہ رکھا اور آئینی پیکج پر اتحادی جماعتوں کے لارجر مسودے پر بلاول بھٹو نے جے یو آئی کے قائد اور قانونی ٹیم سے مذاکرات کیے۔

انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے اس کے بعد نواز شریف سے ملاقات کے لیے جاتی امرا کا دورہ کیا تھا جہاں وزیر اعظم شہباز شریف اور آصف علی زرداری بھی اپنی قانون ٹیموں کے ہمراہ موجود تھے، وہاں مشاورت کے بعد ہم نے پریس ٹاک بھی کی تھی.

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ہم نے واپس آ کر اپنی اتحادی جماعتوں کو مسودے پر اعتماد میں لیا تھا اور آج کابینہ نے جس مسودے کی منظوری دی ہے یہ وہی متفقہ مسودہ ہے البتہ جمعیت علمائے اسلام پاکستان نے جو پانچ ترامیم کی تجویز پیش کی ہے جو آئین میں اسلامی قوانین کے حوالے سے ہیں، شریعت کورٹ کے وہ ججز جو سپریم کورٹ میں تعینات ہونے کے اہل ہوں اس حوالے سے آئین خاموش تھا، ان کے بارے میں ایک شق ڈالی گئی ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ قانون سازی کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کی جو رپورٹس آتی ہیں، ان کی ٹائم لائن دو سال تھی، اسے ایک سال کیا گیا ہے، سود کے بارے میں شریعت کورٹ کے فیصلے پر پالیسیز میں عمل نہیں ہو رہا تھا، اس پر عملدرآمد کو شامل کیا گیا ہے، شریعت کورٹ کی اپیل سپریم کورٹ میں جاتی ہے اس کے طریقہ کار میں کچھ ابہام تھا، اس کو دور کیا گیا، یہی ترامیم اس ڈرافٹ کا حصہ تھیں جو کمیٹی نے منظور کیا اور اگر وہ ترامیم جے یو آئی(ایف) جمع کرا کے ایوان میں لائے گی ہم اس پر ووٹ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ باقی چیزیں وہی ہیں جس میں سپریم کورٹ کی سطح پر آئینی بینچز ہیں اور صوبوں میں بھی متعلقہ قانون کے ذریعے آئینی بینچز کا میکانزم فراہم کردیا گیا ہے، صوبے میں آئینی بینچز کی کی تشکیل کا اختیار صوبے کی منتخب اسمبلی کو دیا گیا ہے اور یہ پیپلز پارٹی کا مشورہ تھا کہ یہ اختیار صوبے کو دیا جائے کہ وہ آئینی بینچز کا قیام چاہتے ہیں یا نہیں اور اس کے لیے ضروری ہو گا کہ پوری اسمبلی 51فیصد کے ساتھ قرارداد منظور کرے تو وہ نافذالعمل ہو جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ آئینی بینچز میں نامزدگیوں کا اختیار چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم جوڈیشل کمیشن کے پاس ہو گا، جوڈیشل کمیشن کی نئی ہئیت کے مطابق اس میں چیف جسٹس پاکستان اور سپریم کورٹ کے چار سینئر ترین جج شامل ہیں، چار پالریمنٹینز جن میں سے دو سینیٹ اور دو قومی اسمبلی سے ہوں گے جہاں دونوں ایوانوں سے ایک، ایک رکن اپوزیشن اور حکومتی بینچز سے ہو گا، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل بدستور اس کا حصہ ہوں گے۔

وزیر قانون نے کہا کہ ججز کی پرفارمنس کے جانچ کے حوالے سے ترامیم شامل ہیں کیونکہ عوام کی شکایت آتی رہی ہیں 8، 10 سال ان کے کیسز زیر التوا رہتے ہیں تو ایسے ججز جن کی کارکردگی غیرموثر ہے، ان کے کیسز سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجے جائیں گے اور وہ چھ ماہ کے اندر فیصلہ کریں گے کیونکہ یہ بھی شکوہ رہا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں سالہا سال فیصلے نہیں ہو پاتے۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی بھی اس آئینی پیکج کا حصہ ہے، ماضی میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے 9 اور صوبوں اور اسلام آباد کے 20 ارکان سمیت 29 رکنی کمیشن ملاقاتیں کرتا رہا ہے، اس کمیشن نے رول بنانے کے لیے اپنی تجاویز مرتب کیں اور ان تجاویز کو سامنے رکھتے ہوئے لاہور میں بھی تعیناتیاں ہوئیں اور سپریم کورٹ میں بھی تقرریاں کی گئیں، اس پر سب نے غور کیا اور مشورہ دیا کہ آپ اس کو فٹنس کے ساتھ بھی ملا کر دیکھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تجویز دی گئی تھی کہ سپریم کورٹ میں تقرری ہو یا ہائی کورٹس میں تقرری ہو، تین سینئر ترین ججوں کے پینل میں سے ناموں پر غور کیا جائے، اسی وجہ سے پنجاب سے جسٹس شاہد بلال حسن کی سپریم کورٹ میں تعیناتی ہو یا جسٹس عالیہ نیلم کی چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ تعیناتی ہو، وہ دونوں نمبر تین سے لیے گئے، تو وہی اصول اس بل میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں تجویز کیا گیا ہے لیکن یہ اختیار وزیر اعظم استعمال نہیں کریں گے نہ ہی یہ اختیار پارلیمان کو تفویض کیا گیا ہے، جس طرح باقی سلیکشن کے لیے پارلیمان میں لارجر کمیٹیز ہیں، اس کو اپوزیشن اور حکومت کا توازن دینے کے لیے 12رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں آٹھ ایم این اے اور چار سینیٹرز شامل ہوں گے جس میں دونوں کی یکساں نمائندگی ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کمیٹی دو تہائی اکثریت سے نام فائنل کر کے وزیراعظم کو بھیجے گی جس کا چیف جسٹس آف پاکستان کے لیے تقرر کیا جائے گا، ہم نے اس پر بہت محنت کی ہے، بار کی قیادت اور سول سوسائٹی سے اس پر بات کی، تمام جماعتوں سے اس پر مشاورت ہوئی اور ہمارا یہ خیال ہے کہ اس سے تعیناتی کے عمل میں مزید شفافیت آئے گی۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ چیف جسٹس کی تعیناتی 3سال کے لیے کی جائے گی کیونکہ ماضی میں ہم نے بڑے تلخ تجربات دیکھے کہ جو لمبے عرصے کے لیے تعیناتیاں ہوئیں اس میں کیا ہوا، ہم دیکھتے رہے ہیں کہ کس طرح سے سوموٹو اور 184 کا استعمال ہوا، موجودہ سپریم کورٹ میں مستقبل کو دیکھیں تو جسٹس منصور علی شاہ کے تین سال سے کچھ دن زیادہ ہیں ورنہ کوئی بڑا فرق نہیں پڑا البتہ قانون ہمیشہ کے لیے بنتے ہیں، تو اس چیز کو سامنے رکھتے ہوئے تین سال یا ریٹائرمنٹ میں سے جو بھی چیز پہلے ہو گی اس کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔

وفاقی وزیر قانون کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اطلاعات و نشریات عطاتارڑ نے کہا کہ پارلیمان کی بالادستی کے حوالے سے آئین بلکل واضح ہے، آج پاکستانی ریاست کے لیے ایک تاریخی دن ہے، آئینی ترمیم کے حوالے سے کوئی کام عجلت میں نہیں ہوا، ایک ایک شق پر طویل گفتگو کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ کسی سیاسی جماعت کو اس عمل سے باہر نہیں رکھا گیا، آئینی ترمیم کا تقاضا تھا کہ اس پر طویل اور سود مند مشاورت کی جائے، یہ جمہوریت کا حسن ہے، کابینہ سے منظوری کے بعد وزیراعظم نے تمام اتحادی جماعتوں کا شکریہ ادا کیا ہے خاص طور پر پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو کا جنہوں نے اس حوالے سے خصوصی کوشش کی ہے۔

عطاتارڑ نے کہا کہ ججز کی تقرری، احتساب کے نظام کو شفاف بنانے کے لیے اور کمیٹی کے اندر سول سوسائٹی کے ممبر خصوصی طور پر خواتین کی شمولیت ایک بڑا سنگ میل ہے۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ آرٹیکل 9 میں اس سے قبل عدالت نے بہت سی جہتیں نکالی ہیں، پاکستان دنیا کے ان سرکردہ ممالک میں شامل ہورہا ہے جو ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اپنے آئین میں شقیں شامل کررہا ہے۔

انہوں نے مسودے کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کرنے کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو نے طے کیا تھا کہ متفقہ مسودے جمعیت علمائے اسلام کی تجاوزیر کو من و عن وہ پیش کریں گے اور سینیٹ میں طے شدہ مسودے کے باقی حصے کو حکومت پیش کرے گی جبکہ قومی اسمبلی میں بل پاس ہونے کے بعد چیئرمین پیپلز پارٹی اس بل کو منظور کروائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ 12 رکنی کمیٹی جس میں اپوزیشن اور حکومت بھی شامل ہے دو تہائی کے ساتھ سنیارٹی کی بنیاد پر موجود پہلے ججز تین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے گا، اس سے شفافیت اور واضح کچھ نہیں ہوسکتا اگر سب اس پر ملکر فیصلہ کرتے ہیں تو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

بینچ کی تشکیل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ حکومتیں نہیں کریں گی، چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے لیے اگر بینچ بنتے ہیں تو اس کی تشکیل جوڈیشل کمیشن کرےگا۔

انہوں نے بتایا کہ آئینی بینچ سپریم کورٹ کے اندر موجود ججز سے ہی بنے گا اور ان کی عمربھی 65 سال ہے، میں حلفیہ یہ بات کہتا ہوں کہ چیف جسٹس نے پچھلے پانچ یا چھ ماہ میں بارہا کہا کہ اگر ایسی ترمیم لائی جائے گی جس میں عمر کی حد میں اضافہ ہوگا تو اس کا حصہ نہیں بنوں گا۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) نے ہمیں مقامی حکومتوں کو مضبوط بنانے کے لیے آئین کے آرٹیکل اے میں مناسب ترامیم کی تجویز دی ہے، ہم نے ان کے ساتھ طے کیا ہوا ہے کہ اس ترمیم کو بھی اتفاق رائے سے منظور کیا جائے گا لیکن اس پیکج کا یہ حصہ نہیں ہے اور کچھ جماعتوں کو اس پر اعتراض ہے۔

بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے ہمیں تجویز تھی، ان سے بھی ہمارا وعدہ ہے کہ ہم اگلے مرحلے میں یہ چیزیں زیر غور آئیں گی اور ہم اس پر اتفاق رائے کروانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ریٹائرمنٹ کی حد 65 سال ہے اور عہدے کی معیاد تین سال سے اگے نہیں جائے گی، اگر 64 سال کے چیف جسٹس ہیں اور ان کی تین سال کی مدت پوری ہوگئی ہے تو وہ ریٹائر ہوجائیں گے۔