نقطہ نظر

کیا واقعی یوئیفا چیمپیئنز لیگ کا نیا فارمیٹ کلب فٹبال کی دنیا کا تاریخی لمحہ ہے؟

چیمپیئنز لیگ میں میچز کی تعداد بڑھا دینے سے شائقین کی اسٹیڈیم حاضری اور ان کے جوش و ولولے میں کمی واقع ہوسکتی ہے یعنی یوئیفا نے نئے فارمیٹ کے نام پر جوا کھیلا ہے۔
|

دنیائے فٹبال کے چند ماہرین پہلے ہی پیش گوئی کرچکے ہیں کہ 2024ء کے یوئیفا (UEFA) چیمپیئنز لیگ کی فاتح ٹیم ہی 2025ء میں ٹائٹل اپنے نام کرے گی۔ لیکن اگر ہسپانوی کلب ریال میڈریڈ ٹائٹل کا دفاع کرنے میں کامیاب رہتا ہے تو وہ ایک بالکل مختلف فارمیٹ میں کھیل کر یہ ٹورنامنٹ جیتے گی۔

چیمپیئنز لیگ جہاں پہلے چار چار ٹیموں پر مشتمل 8 گروپس ناک آؤٹ مرحلے تک رسائی حاصل کرنے کے لیے آپس میں میچز کھیلتے تھے، اب یہ فارمیٹ مکمل طور پر تبدیل ہوچکا ہے۔ اب چیمپیئنز لیگ 36 ٹیموں (4 کلبز کا اضافہ ہوا ہے) کی ایک لیگ بن چکی ہے۔

اپنے گروپ حریفوں کے خلاف ایک میچ ہوم گراؤنڈ اور ایک اووے میچ کھیلنے کے بجائے، کلبز چار ہوم اور 4 اووے میچز ایسی ٹیموں کے خلاف کھیلیں گی جن کا انتخاب کمپیوٹر ایلگورتھم کے ذریعے کیا جائے گا۔ یعنی دو ٹیموں کے مابین دو بار میچز نہیں کھیلے جائیں گے۔

نئے فارمیٹ کے مطابق ابتدائی میچز کھیلنے کے بعد پوائنٹس ٹیبل کی ٹاپ 8 ٹیمیں اگلے مرحلے راؤنڈ آف 16 میں جگہ بنائیں گی۔ پوائنٹس ٹیبل پر 25ویں سے 36ویں نمبر پر آنے والی ٹیمیں فوری طور پر لیگ سے باہر ہوجائیں گی۔

لیکن 9ویں سے 24ویں پوزیشن پر آنے والی ٹیموں کو راؤنڈ آف 16 میں جگہ بنانے کا ایک اور موقع ملے گا جس میں ٹیمیں آپس میں دو لیگز پر مشتمل ایک ایک میچ کھیلیں گی۔ اس وقت کے دوران ہوگا کہ 9ویں سے 16ویں نمبر پر آنے والی ٹیموں کا ٹاکرا 17ویں سے 24ویں نمبر پر آنے والی ٹیموں سے ہوگا۔ ان مقابلوں کے نتیجے میں جیتنے والی 8 ٹیموں کو موقع ملے گا کہ وہ پہلے رسائی حاصل کرنے والی ٹاپ 8 ٹیموں کے ساتھ راؤنڈ آف 16 مرحلے میں جگہ بنائیں۔

ایک بار جب چیمپیئنز لیگ راؤنڈ آف 16 تک پہنچ جائے گی تو اس کے بعد وہی پرانا فارمیٹ ہوگا کہ جہاں ٹیمیں دو لیگز (ہوم اور اووے) پر مشتمل ایک میچز کھیلیں گی جس کے نتیجے میں فاتح ٹیمیں کوارٹر فائنل، سیمی فائنل اور فائنل تک رسائی حاصل کریں گی۔

ٹیموں اور فٹبال شائقین دونوں کو ہی اس نئے فارمیٹ کا عادی بننے میں کچھ وقت لگے گا۔ فٹبال کے دیگر بہت سے معاملات اور فیصلوں کی طرح (یا ہم یہ کہیں کہ ہر فیصلے کی طرح؟) اس فیصلے پر بھی مختلف آرا سامنے آرہی ہیں۔

یوئیفا نے اسے ’تاریخی لمحہ‘ قرار دیا۔ کچھ حلقے تنقید کررہے ہیں اور نئے فارمیٹ کو متعارف کروانے کے پیچھے منتظمین کے محرکات پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ فیصلہ، متنازع اور برباد پروجیکٹ کا حصہ ہے جس کا مقصد یوروپیئن سُپر لیگ کا قیام ہے۔

لیکن ممکن ہے کہ اس سے فٹبال کو فائدہ ہو۔

سب سے پہلے ہوگا یہ کہ اس فارمیٹ سے چیمپیئنز لیگ میں مقابلے سخت ہوجائیں گے اور یہ روایت ختم ہوجائے گی کہ جس میں صرف چند بڑی ٹیموں کا ہی لیگ پر غلبہ رہتا تھا۔ حال ہی میں ہونے والے ایک مطالعے میں نئے اور پرانے فارمیٹ کا موازنہ کیا گیا جس میں 5 ہزار لوگوں نے اس رائے سے اتفاق کیا کہ اس تبدیلی سے لیگ پر محض چند ٹیموں کا غلبہ نہیں رہے گا۔

مطالعے میں یہ بھی سامنے آیا کہ اس نئے فارمیٹ کی وجہ سے ایسے میچز کی تعداد میں کمی واقع ہوگی جن کے فیصلے گزشتہ میچز کی وجہ سے طے شدہ ہوچکے ہوتے ہیں جنہیں اسپورٹس میں ’ڈیڈ ربر‘ کہا جاتا ہے۔ گزشتہ فارمیٹ میں ایسے میچز کی شرح 15 فیصد تھی کہ جن میں ہار یا جیت ٹیم کی کارکردگی پر اثرانداز نہیں ہوتی تھی لیکن نئے فارمیٹ میں مقابلہ سخت ہوجانے کے باعث یہ شرح گر کر 2 فیصد تک آسکتی ہے۔

نئے فارمیٹ میں ایک اور بڑی تبدیلی یہ ہے کہ درجہ بندی کے لیے ٹیموں کی پچھلی کارکردگی کو کم اہمیت دی جائے گی۔ اس کے بجائے نئے فارمیٹ میں موجودہ سیزن کی کارکردگی کو زیادہ اہمیت حاصل ہوگی۔

اب اس ٹورنامنٹ کے پہلے مرحلے میں تمام میچز کے اگلے راؤنڈز کی درجہ بندی پر اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سے ہر کلب کو کارکردگی دکھانے اور اضافی پلے آف گیمز سے بچنے کی ترغیب ملتی ہے۔ مقابلہ سخت ہوجانے کی وجہ سے کلب اسٹار کھلاڑیوں کو آرام کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہوسکتے ہیں۔

مالیاتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو چیمپیئنز لیگ کے نئے فارمیٹ میں شرکت کرنے والی ٹیموں کو ایک کروڑ 75 لاکھ ڈالرز ملیں گے جو پچھلے سال کے مقابلے میں 30 لاکھ ڈالرز زیادہ ہے۔ مجموعی طور پر مختلف مرحلوں پر ٹیموں کو دی جانے والی انعامی رقم میں 33 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور یہ اب ایک ارب 9 کروڑ ڈالرز ہوچکی ہے۔

یوئیفا خود اس نئے فارمیٹ سے ممکنہ طور پر تقریباً 25 کروڑ 23 لاکھ ڈالرز کمانے کے لیے تیار ہے جبکہ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ 48 کروڑ 56 لاکھ ڈالرز کی فنڈز مختص کریں گے جو چیمپیئنز لیگ میں حصہ نہ لینے والے کلبز اور کوالیفائنگ راؤنڈ پار نہ کرنے والے یورپی کلبز کو پورے یورپ میں فٹبال کھیلنے کے لیے فراہم کیے جائیں گے۔

چیمپیئنز لیگ میں شامل کلبز کے لیے نئے فارمیٹ کا مطلب زیادہ میچز اور زیادہ وقت ہوگا۔ گزشتہ فارمیٹ میں فائنل میں پہنچنے والی دو کامیاب ٹیمیں 13، 13 میچز کھیل کر پہنچتی تھیں لیکن اب نئے فارمیٹ کے مطابق انہیں 17 میچز کھیلنے ہوں گے جو کہ بہت زیادہ ہیں کیونکہ فٹبال سیزن کا شیڈول پہلے سے سخت ہوتا ہے۔

زیادہ میچز کھیلنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کھلاڑیوں کے زخمی ہونے کے امکانات بھی زیادہ ہوں گے۔ پچھلے سیزن میں انگلش پریمیئر لیگ میں کھلاڑیوں کے زخمی ہونے کی تعداد میں 11 فیصد اضافہ ہوا جہاں کچھ ٹیموں کے 22 کھلاڑی انجری کا شکار ہوئے۔

اس موسم گرما کی ٹرانسفر ونڈو میں بہت سے پریمیئر لیگ کلبز نے اپنے اسکواڈ میں نئے کھلاڑیوں کو شامل نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے کھلاڑیوں کی کارکردگی اور صحت مزید خطرے میں پڑ چکی ہے۔ اگست میں نئی چیمپیئنز لیگ شروع ہونے سے عین قبل مانچسٹر سٹی کے مڈفیلڈر روڈری نے کہا کہ کھلاڑی ’ہڑتال پر جانے کے قریب ہیں‘۔

یوئیفا نے کھلاڑیوں کی ذہنی و جسمانی تھکان اور میچز میں غیرمعمولی اضافے کا اعتراف کیا ہے لیکن وہ اس بات پر بھی اصرار کرتے ہیں کہ چیمپیئنز لیگ میچز میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔

فٹبال شائقین کے حوالے سے دیکھنا ہوگا کہ وہ چیمپیئنز لیگ کے نئے فارمیٹ پر کس طرح کا رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ وہ غصے کا اظہار کریں گے یا اسے زیادہ دلچسپ قرار دیں گے۔ بہرحال اسی بہانے نسبتاً چھوٹے کلب کے شائقین کو فٹبال کے کچھ تاریخی مقامات کا دورہ کرنے کا موقع ملے گا جہاں وہ اپنی ٹیموں کو کھیلتا ہوا دیکھیں گے اور کچھ غیرمقبول کلبز میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ٹورنامنٹس میں اپ سیٹ سے بھی ٹیموں کو دوچار کرسکتے ہیں۔

لیکن ہمیشہ کی طرح شائقین کو بھاری قیمت بھی ادا کرنا ہوگی۔ برطانوی کلب آسٹن ولا میں ٹکٹ کی قیمتوں کے بارے میں پہلے ہی اضطراب پایا جارہا ہے جسے چیمپیئنز لیگ میں شرکت کرنے کا موقع ملا ہے۔

ٹورنامنٹ میں میچز کی تعداد بڑھا دینے سے شائقین کی اسٹیڈیم حاضری اور ان کے جوش و ولولے میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ اس اعتبار سے یوئیفا نے نئے فارمیٹ کے نام پر جوا کھیلا ہے جوکہ رسک ہے۔ لیکن کھلاڑیوں اور کلبز کے برعکس ہم ابھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ فٹبال شائقین میں یہ گمان پایا جانے لگا ہے کہ اس لیگ میں ضرورت سے زیادہ میچز کھیلے جارہے ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

رونی داس

رونی داس یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں ڈیٹا اینالیٹکس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
وسیم احمد

لکھاری انگلینڈ میں یارکشائر کی یونیورسٹی آف ہل میں مارکیٹنگ کے سینئر لیکچرار ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔