پاکستان

لاپتا افراد کیس کے معاملے پر اسلام آباد ہائیکورٹ تقسیم کا شکار

جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس ارباب محمد طاہر نے بلوچستان سے متعلق سیکیورٹی معاملات پر ان کیمرہ کارروائی کیلئے اسلام ہائیکورٹ کے اختیار اور دائرہ اختیار پر سوال اٹھایا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کا لارجر بینچ بلوچستان کے لاپتا افراد کے کیسز کو نمٹانے کے معاملے پر تقسیم کا شکار ہے، ملٹری اور سول انٹیلی جنس ایجنسیوں سے ان کیمرہ بریفنگ کے معاملے پر 3 میں سے 2 ججز نے سینئر جج کی ہدایت سے اختلاف کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس محسن اختر کیانی نے گزشتہ سماعت پر انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے حکام کو 31 اکتوبر کو اس معاملے پر تفصیلی بریفنگ دینے کا حکم دیا تھا۔

تاہم جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس ارباب محمد طاہر نے ایک الگ اختلافی نوٹ میں بلوچستان سے متعلق سیکیورٹی معاملات پر ان کیمرہ کارروائی کے لیے اسلام ہائیکورٹ کے اختیار اور دائرہ اختیار پر سوال اٹھایا۔

بنچ کے دونوں ممبران ان 6 ججوں میں شامل تھے جنہوں نے سینئر جج کے ساتھ مل کر سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا جس میں انٹیلی جنس حکام کی طرف سے عدالتی معاملات میں مداخلت کے خلاف شکایت کی گئی تھی۔

جسٹس کیانی کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 3 رکنی بینچ کا مقصد لاپتا افراد کے کیسز میں ریاست کے ملوث ہونے اور بلوچستان میں سیکیورٹی کی صورتحال کی تحقیقات کرنا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی کے حکم نامے میں لاپتا افراد کے گمشدگی کے حالات، ریاست کا ردعمل اور استغاثہ یا بازیابی کی فزیبلٹی سمیت ہر کیس پر ایک جامع پیشکش مانگی گئی ہے۔

اس سے قبل بنچ نے تینوں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے حکم دیا ’کمیٹی آئندہ تاریخ یعنی 31 اکتوبر کو ان کیمرہ بریفنگ میں دیگر تمام کیسز کی تفصیلات کے ساتھ بلوچستان میں سیکیورٹی کی صورتحال سے متعلق مکمل پیش کرے‘۔

سینئر جج نے ایجنسیوں سے کہا ہے کہ وہ ’ہر کیس‘ پر پریزنٹیشن پیش کریں جس میں ’سیکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے اپنایا گیا طریقہ کار‘، ’اگر لاپتا شخص زندہ نہیں ہے تو تحریری معلومات فراہم کی جائیں‘، ’لاپتا شخص کی بازیابی کا امکان‘، ’مبینہ طور پر لاپتا شخص کے خلاف فوجداری کارروائی‘، ’گرفتار افراد کی بحالی کا کوئی طریقہ کار‘، ’لاپتا افراد کے معاملات میں ریاست کی طرف سے اٹھائے جانے والے اخراجات‘، ’طویل یا قلیل مدتی حل‘ سمیت لاپتا افراد کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی سے آگاہ کیا جائے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے رجسٹرار آفس کو عدالت میں ان کیمرہ کارروائی کا انتظام کرنے کی بھی ہدایت کی، جہاں صرف انٹیلی جنس حکام، لا افسران اور وزارت دفاع کے نمائندے موجود ہوں گے۔

تاہم جسٹس کیانی کے تحریر کردہ حکم نامے کو جسٹس جہانگیری اور جسٹس ارباب کے ساتھ شیئر کیا گیا تو بنچ کے دونوں ارکان نے اس کی مخالفت کی۔

دونوں ججوں نے مشترکہ طور پر اپنے دستخط شدہ ایک نوٹ میں کہا ’ہم آئندہ سماعت کی تاریخ پر وفاقی کابینہ کے فیصلے کی روشنی میں اس معاملے میں پاکستان کے ماہر اٹارنی جنرل کو سننا چاہیں گے‘۔

دونوں ججوں کی رائے تھی کہ آئین کے آرٹیکل 90 کے تحت وفاق کا انتظامی اختیار وفاقی حکومت استعمال کرتی ہے، دونوں اراکین نے لکھا کہ ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ اس معاملے کو وفاقی کابینہ کے سامنے غور اور اس کے حل کے لیے رکھا جائے۔

’وفاقی حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس معاملے پر غور کرے گی‘، آئندہ سماعت سے قبل اس معاملے کو قانون کے مطابق فیصلے کے لیے وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔