ہم ہر صورت برابری کی نمائندہ آئینی عدالت بنائیں گے، بلاول بھٹو زرداری
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ برابری کی نمائندہ آئینی عدالت کا مطالبہ ہر صورت ماننا پڑے گا، پاکستان پیپلز پارٹی کے مسودے پر تمام جماعتوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش میں ناکامی پر حکومت کی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس فریضے کو سرانجام دیا جائے گا۔
حیدرآباد میں پیپلز پارٹی کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئےبلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو ایک نظریے اور منشور کے ساتھ وطن واپس آئی تھیں، بی بی شہید چاہتی تھیں کہ پاکستان کے عوام کو روٹی کپڑا اور مکان ملے۔
انہوں نے کہا کہ میثاق جمہوریت میں درج آئینی عدالت بنانا شہید بے نظیر بھٹو کا خواب تھا، اس وفاقی عدالت میں تمام صوبوں کی برابری کی نمائندگی ہونی تھی، اس عدالت کا مقصد پاکستان کے آئین کا تحفظ کرنا تھا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی خواہش تھی کہ وفاقی عدالت کے قیام سے عدالت میں ون یونٹ کی سوچ کو ختم کیا جائے، ان کا یہ مطالبہ اس لیے سامنے آیا تھا کیونکہ وہ ہمارے عدالتی نظام کو بہتر طریقے سے جانتی تھیں، وہ جانتی تھیں جب بھی موقع آیا عدالتوں نے عوام، آئین اور دستور کا ساتھ دینے کے بجائے آمر کا ساتھ دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ تھی جس کی وجہ سے محترمہ بینظیر بھٹو آئینی عدالت کے قیام کا وعدہ کر چکی تھیں۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ 18 اکتوبر 2007 پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑا دہشت گردی کا واقعہ ہے، شہدا نے سب سے پہلے بی بی شہید کی جان کو بچانے کے لیے اپنی قربانی دی۔
انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کے عوام اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو خوشخبری دینا چاہتے ہیں کہ ہم آئینی عدالت بنانے جارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام آئینی عدالت کے مطالبے کے ساتھ کھڑے ہیں، پاکستانی عوام کا مطالبہ ہے کہ برابری کی نمائندگی پر مبنی آئینی عدالت بنائی جائے تاکہ عوام کو فوری اور جلدی انصاف ملے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ آئینی عدالت بنانا قائد اعظم محمد علی جناح کا مطالبہ تھا، اس کے بعد شہید محترمہ بینظیر بھٹو اور آج میں اور پاکستان کے عوام اس کا مطالبہ کر رہے ہیں، تمام سیاسی جماعتیں مل کر اس نامکمل مشن کو مکمل کرکے دکھائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ انصاف اور برابری کا ہے، عوام سوال کرتے ہیں کہ آپ نے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا، شہید بی بی کو انصاف نہیں دیا اور یہی عوام سوال کرتے ہیں کہ آپ نے ہر آمر کے لیے دروازے کھولے ہیں، جب تک یہ عدالت اپنی مرضی کے مطابق چلے گی تب تک پاکستان کے عوام کو انصاف نہیں مل سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مطالبہ برابری کا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ جب اس ملک کی سب سے بڑی عدالت آئین، وفاق، صوبوں اور وفاق کے مسائل پر فیصلے دے تو اس عدالت میں تمام صوبوں کی برابری کی نمائندگی ہو۔
انہوں نے کہا کہ آئینی عدالت کا قیام ہمارا دہائیوں پر مبنی مطالبہ ہے، آپ کو ہمارا مطالبہ ماننا پڑے گا اور برابری کی نمائندہ وفاقی عدالت بنانی پڑے گی، ہم اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ یہ خواب پورا ہو مگر آج بھی سیاسی جماعتوں کے لیے ایک امتحان ہے، ہماری کوشش ہے کہ ہم متفقہ طور پر 18ویں ترمیم کی طرح یہ آئین سازی کریں۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہم سے جو ہو سکا ہم نے وہ کرلیا، میں نے کہا بینچ بنا لیں لیکن برابری کی نمائندگی دیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جرات مندانہ فیصلے سنانے پر سلام پیش کرتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا آئین سازی اکیلے نہیں کرنا چاہتا بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر متفقہ طور پر سرانجام دینا چاہتے ہیں، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سمیت تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ ہمیں متفقہ طور پر ترمیم کرنے کے بجائے اکثریتی فیصلے سے ترمیم کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ وہ مولانا فضل الرحمٰن سے آج رات ایک آخری درخواست کریں گے کہ آئینی عدالت کے قیام پر رضامند ہوجائیں تاکہ ہم اس کام کو جمہوری اور غیر متنازع طریقے سے سرانجام دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے آخری موقع ہے کہ ہوش کے ناخن لیے جائیں، سیاسی جماعتوں نے سمجھوتہ کرلیا ہے، ہم متحد ہو چکے ہیں، چاہتے ہیں کہ یہ کام اپوزیشن کے ساتھ مل کر کیا جائے، اسلام آباد جاکر آئینی ترمیم کے لیے ایک آخری کوشش کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اگر اتنے سارے سمجھوتوں کے باوجود یہ کام نہیں کرسکتی تو پھر مجبوراً ہمیں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اکثریت کے طور پر قانون سازی کرنی پڑے گی، اگر اپوزیشن ہمارے ساتھ اس کام کو کرنے پر رضامند نہیں ہو گی تو پھر ہمیں متنازع راستہ چننا پڑے گا، اس طریقے سے ملک میں سیاسی کشیدگی کم ہونے کے بعد بڑھے گی۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے مسودے پر تمام جماعتوں کو اکٹھا کرکے اسے قومی اسمبلی میں پیش کریں گے اور اگر وہ یہ کام نہ کر سکے تو حکومت کی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس فریضے کو سرانجام دیں گے۔