ڈاکٹر عافیہ کی سزا معاف کرنے کیلئے شہباز شریف کا امریکی صدر کو خط
وزیراعظم شہباز شریف نے امریکی صدر جو بائیڈن کو خط لکھ کر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی سزا معاف اور ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق وزیر اعظم نے امریکی صدر خط لکھ کر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی سزا معاف اور ان کی رہائی کی درخواست کی۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ میری آپ سے امریکا اور میرے آبائی شہر لاہور میں ملاقات ہوئی، میں نے آپ کو ہمیشہ پاکستان اور اُس کے عوام کا دوست پایا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے جوبائیڈن سےکہاکہ میں آپ کی توجہ ایسے اہم معاملے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں جسے ہمدردی کی بنیاد پر دیکھا جانا چاہیے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی ایف ایم سی کارسویل میں ستمبر 2010 سے قید ہیں، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ نے 86 سال قید کی سزا سنا رکھی ہے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکی جیل میں 16سال کی قید کاٹ چکی ہیں، اِن برسوں میں پاکستانی آفیشلز عافیہ صدیقی سے کونسلر ملاقاتیں کر چکے ہیں اور ملاقات کرنے والے تمام افراد نے ڈاکٹر عافیہ کو میسر علاج کی سہولیات سے متعلق سنگین تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ بطور وزیراعظم اِس معاملے میں مداخلت میری ذمہ داری ہے، گزارش ہے کہ آپ اپنا آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے انسانی بنیادوں پر عافیہ صدیقی کی سزا معاف اور انہیں رہا کرنے کا حکم دیں، مجھ سمیت عافیہ صدیقی کے اہلخانہ اور لاکھوں پاکستانی آپ کی عنایت کے منتظر ہیں۔
قبل ازیں جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی کی درخواست پر سماعت کی جہاں دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے عدالت کو کیس میں اہم پیشرفت سے متعلق آگاہ کیا۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے اور ان کی جانب سے عمران شفیق ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل عمران شفیق نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج دو سال بعد ہماری کوششوں کی وجہ سے کیس میں بڑی اہم پیشرفت ہو گئی ہے، وزیر اعظم پاکستان نے امریکی صدر کو خط لکھ دیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو رہا کیا جائے، ہم نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ حکومت پاکستان امریکا سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان نے ہمارے مطالبے پر امریکی صدر کو خط لکھ دیا، اٹارنی جنرل نے عدالت میں آ کر بتایا تھا کہ حکومت کی جانب سے امریکی صدر کو خط لکھ دیا، عدالت نے ہدایت کی تھی کہ حکومت پاکستان اس حوالے سے مکمل معاونت فراہم کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسرا بڑا اہم قدم یہ ہے کہ عدالت نے یہ بھی ہدایات کی تھی کہ حکومت پاکستان اس حوالے سے ایک اعلیٰ سطح کا وفد بھی بھیجے، اس سلسلے میں حکومت کا یہ قدم خوش آئند ہے۔
عافیہ صدیقی کے خلاف کیس
عافیہ صدیقی کو 2010 میں ایک امریکی وفاقی عدالت نے 86 سال قید کی سزا سنائی تھی جب وہ افغانستان میں امریکی حراست میں تھیں، انہیں فوجیوں پر فائرنگ کرنے کے علاوہ 6 دیگر الزامات کے تحت مجرم قرار دیا گیا تھا۔
ان کے وکلا نے 12 سال کی سزا کی درخواست کی تھی جبکہ استغاثہ نے عمر قید کی سزا کے لیے دلائل دیے تھے، استغاثہ نے الزام لگایا تھا کہ عافیہ صدیقی نے امریکی فوجی کی رائفل سے فوجیوں پر فائرنگ کی تھی۔
عافیہ صدیقی کے اہل خانہ اور حامیوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں پاکستان میں گرفتار کر کے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے حوالے کیا گیا تھا جنہوں نے انہیں امریکی تحویل میں منتقل کر دیا تھا تاہم امریکی اور پاکستانی حکام دونوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں افغانستان میں گرفتار کیا گیا تھا۔
عافیہ صدیقی نے میساچیوسس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور برینڈیز یونیورسٹی سے حیاتیات اور نیورو سائنس میں ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں جب کہ وہ 1991 سے جون 2002 کے درمیان امریکا میں مقیم بھی رہ چکی ہیں، انہوں نے خود پر عائد الزامات کی تردید کرتے ہوئے ہتھیار پکڑنے یا اسلحے کے استعمال سے واقفیت رکھنے سے انکار کیا تھا۔
افغانستان میں ملنے سے قبل وہ مبینہ طور پر 5 سال تک لاپتا رہی تھیں۔