پاکستان

مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) آئینی بینچ پر متفق ہوگئی ہیں، رانا ثنااللہ

ملٹری کورٹس کے معاملے پر اتفاق نہیں ہوسکا، جن ترامیم پر اتفاق رائے نہیں ہوا انہیں حتمی مسودے میں شامل نہیں کیا جائے گا، مشیر وزیر اعظم

وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) آئینی بینچ تشکیل دیے جانے پر متفق ہوگئی ہیں۔

ڈان نیوز کے پروگرام ’لائیو ود عادل شاہ زیب‘ میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’مولانا فضل الرحمٰن نے آئینی بینچ کی تجویز پیش کی جسے منظور کیا گیا ہے، تاہم ملٹری کورٹس کے معاملے پر اتفاق نہیں ہوسکا۔‘

انہوں نے کہا کہ جن ترامیم پر اتفاق رائے نہیں ہوا انہیں حتمی مسودے میں شامل نہیں کیا جائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے لیے جوڈیشل کمیشن 3 سینئر ترین ججز میں سے ایک نام وزیر اعظم کو تجویز کرے گا، جبکہ آئینی بینچ جوڈیشل کمیشن بنائے گا۔

رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ’مولانا نہیں مان رہے تھے تو ہم مان گئے، جے یو آئی کے جس مسودے پر ہم متفق ہوئے ہیں وہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے اتفاق رائے سے تیار ہوا ہے۔‘

قبل ازیں آج صبح آئینی ترمیم پر اتفاقِ رائے کے لیے قائم پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں جمعییت علمائے اسلام کی تجویز پر حکومت اور پیپلزپارٹی نے آئینی عدالت کے قیام سے پیچھے ہٹنے پر رضامندی ظاہر کردی تھی۔

26ویں آئینی ترمیم پر اتفاق رائے کے لیے قائم پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ کی زیر صدارت ہوا۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں پارلیمانی جماعتوں کی جانب سے آئینی ترمیمی مسودوں پر اتفاقِ رائے کے قیام اور پارلیمانی جماعتوں کے مسودوں کو یکجا کرنے پر گفتگو ہوئی۔

پیشرفت سے باخبر باوثوق ذرائع نے دعویٰ کیا کہ حکومت اور پیپلزپارٹی نے آئینی عدالت کے قیام سے پیچھے ہٹنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔

جے یو آئی ایف نے حکومت اور پیپلزپارٹی کو آئینی عدالت کا مسودہ واپس لینے کی تجویز دی جس پر پیپلزپارٹی اور حکومت نے آئینی عدالت کا مسودہ واپس لینے پر رضامندی ظاہر کردی۔

ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے آصف علی زرداری اور نواز شریف سے مشاورت کا فیصلہ کیا ہے اور دونوں رہنماؤں کی رضامندی کے بعد آئینی عدالت سے متعلق مسودہ باضابطہ طور پر واپس لیا جائے گا۔

اجلاس میں تجویز پیش کی گئی کہ آئینی عدالت کے بجائے آئینی بینچ تشکیل دیا جانا چاہیے۔