پاکستان

ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کی الیکشن ٹربیونل تبدیل کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے 4 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسلام آباد کے الیکشن ٹربیونل تبدیل کرنے کی مسلم لیگ (ن) کے امیدوار طارق فضل چوہدری کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے 4 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، پی ٹی آئی امیدوار شعیب شاہین الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔

شعیب شاہین نے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایک ہفتے کا وقت دیا جائے، ہائی کورٹ میں کیس چل رہا ہے نوٹس ہو گئے ہیں۔

اس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ایسا تو نہیں ہو سکتا اگر عدالت نے کارروائی سے روکا ہو تو وقت دیا جا سکتا تھا۔

(ن) لیگ کے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس ٹربیونل کی تبدیلی کا اختیار موجود ہے اور یہ جوڈیشل اختیار نہیں ہے، الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے، الیکشن کمیشن اپنی مرضی اور درخواست کی بنیاد پر بھی ٹربیونل تبدیل کر سکتا ہے، ہم نے پچھلی سماعت پر بھی یہی گراؤنڈ دیا تھا کہ ہمیں ٹربیونل جج پر اعتماد نہیں۔

وکیل ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ ٹربیونل کی جانب سے طریقہ کار کو فالو نہیں کیا گیا۔

رکن الیکشن کمیشن نثار درانی نے کہا کہ مطلب آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ٹربیونل کا طریقہ کار فالو نہ کرنا ٹربیونل تبدیلی کی ٹھوس وجہ ہے۔

اس پر وکیل ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ جی بالکل ایسا ہی ہے، ٹربیونل کی ذمہ داری ہے کہ وہ الیکشن ایکٹ کے مطابق کام کرے گا، جب تک ٹربیونل الیکشن ایکٹ کے سیکشنز 142 سے 146 پر عملدرآمد نہیں کر لیتا ٹربیونل ہمیں نہیں بلا سکتا، ٹربیونل جج کے سامنے درخواست دیں، اعتراض کی درخواست ٹربیونل جج کے سامنے لازمی نہیں۔

رکن الیکشن کمیشن نثار درانی نے کہا کہ ٹربیونل تبدیل کرنے کے لیے مضبوط وجوہات بھی تو ہونی چاہئیں۔

وکیل ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ الیکشن ایکٹ ہمیں حق دیتا ہے کہ ہم الیکشن ٹربیونل کے خلاف کمیشن سے درخواست کریں۔

وکیل کی جانب سے آصف علی زرداری کے کیس کا حوالہ بھی دیا گیا، انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری کیس میں سپریم کورٹ نے عجیب ریمارکس دیے تھے، ہم ابھی اس مرحلے پر نہیں پہنچے نہ جانا چاہتے ہیں۔

رکن الیکشن کمیشن نے کہا کہ مطلب آپ ٹربیونل جج پر جانبداری کا الزام نہیں لگا رہے۔

وکیل ڈاکٹر طارق فضل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ بالکل ایسا ہی ہے، ہم جج کے وقار کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے، سپریم کورٹ لاہور اور سندھ ہائی کورٹ کے فیصلوں کے مطابق ٹربیونل تبدیلی کے لیے اعتماد کا نہ ہونا کافی ہے، تیز رفتار ٹرائل کو جواز بنا کر پروسیجر پروٹیکشن کو ختم نہیں کیا جا سکتا ہے، فریق کی جانب سے کہا جاتا ہے ہم جج کو جانبدار کہہ رہے ہیں۔

شعیب شاہین نے جواباً کہا کہ آپ ہمارے اوپر نہ ڈالیں، آپ بتائیں جج جانبدار ہیں یا نہیں؟

چیف الیکشن کمشنر نے شعیب شاہین کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ آپ ان کو دلائل دینے دیں۔

وکیل ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جہاں مفاد عامہ ہو وہاں الیکشن کمیشن ٹربیونل تبدیل کر سکتا ہے، اگر کوئی قتل کا مقدمہ ہو تو بھی پروسیجر پروٹیکشن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

رکن الیکشن کمیشن نثار درانی نے کہا کہ کمیشن کے پاس کس طرح کی ٹرانسفر کی درخواستیں آنی چاہئیں۔

اس پر شعیب شاہین نے کہا کہ ٹربیونل تبدیل کی درخواستوں میں جج فوت ہوجائے، ریٹائرڈ ہو جائے یا پھر عہدے سے ہٹ جائے وجوہات ہونی چاہئیں۔

شعیب شاہین نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے تو کیا سپریم کورٹ جانبدار ہو گئی، کمیشن اگر آج فیصلہ کر دے تو پھر درخواستیں آئیں گی کہ ہمیں جج پر اعتماد نہیں ٹربیونل تبدیل کریں، آج یہ حاضر سروس جج سے کیس ٹرانسفر کر کے ریٹائرڈ جج کے پاس لے جانا چاہتے ہیں، ہم پاکستان میں رہتے ہیں ریٹائرڈ جج کیسے پروٹیکٹ ہو گا، ہمارے اراکین قومی اسمبلی کو اٹھایا جا رہا ہے، زین قریشی کی بیوی کو رات میں اٹھایا گیا ہے، الیکشن کمیشن نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت سے ٹربیونل بنایا۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن نے ٹربیونل بنایا تو الیکشن کمیشن تبدیلی بھی تو کر سکتا ہے۔

چیف الیکشن کمشنر نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیا کہتے ہیں ریٹائرڈ جج کو ٹربیونل جج تعینات کیا جا سکتا ہے؟

شعیب شاہین نے جواب دیتے ہوئے کہ کہ ابھی تک تو ریٹائرڈ جج تعینات ہو سکتا ہے مگر ہم نے اس کو چیلنج کیا ہوا ہے۔

شعیب شاہین نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ ہم نے کسی کو پارٹی نہیں بنایا تھا ٹربیونل نے پارٹی بنایا، نوٹی فکیشن 11 فروری کو جاری ہوا، فارم 48 اور 49، 12 فروری کو تیار ہوئے، انہوں نے 11 تاریخ کے نوٹی فکیشن پر حلف اٹھایا، میرا الزام آر او اور الیکشن کمیشن پر ہے، الیکشن کمیشن نے جانبدار ہونے کی بنیاد پر ٹربیونل تبدیل کیا، ترمیم شدہ درخواست کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، پہلے جانبدار ہونے کا الزام لگایا اب اسی درخواست میں کہتی ہیں وہ گراؤنڈ درست نہیں۔

شعیب شاہین نے مزید کہا کہ ان کی طرف سے سماعت طویل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، نہ جواب جمع کراتے ہیں نہ فارم جمع کرائے نہ ان کو جرمانہ ہوتا ہے، ان کے خلاف آج کی تاریخ تک میں کچھ بھی نہیں ہوا، کہیں کہ میرا جج میرا رشتہ دار ہے یا کوئی گراؤنڈ تو بتائیں کیوں اعتراض ہے، ٹریبونل نے 7 دن کا وقت دیا کہ فریقین جوابات جمع کروائیں۔

شعیب شاہین نے سماعت کے دوران الیکشن ٹربیونل کی جانب سے جاری کردہ حکم نامے پڑھے۔

پی ٹی آئی امیدوار نے کہا کہ اگر آر او فریق ہے اس نے جواب نہیں دیا تو ٹربیونل کیا کرے گا، ریکارڈ جمع کروانا اس کی ذمہ داری ہے ٹربیونل نے آر او کو ذاتی حیثیت سے طلب نہیں کیا۔

رکن الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ آر او کو کمیشن کی اجازت کے بغیر پارٹی نہیں بنا سکتے۔

اس پر شعیب شاہین نے کہا کہ میرا الزام ہی آر او اور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری پر ہے، ہم الزام ہی آر او پر لگا رہے ہیں اور اس کو پارٹی ہی نہیں بنائیں گے تو درخواست ناقابل سماعت ہو سکتی تھی۔

رکن خیبر پختونخوا نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں 7 دن کا ٹائم تھا ٹربیونل نے 18 دن دیے، جرمانہ ایک لاکھ تھا ٹربیونل نے 20 ہزار جرمانہ کیا، دیکھا جائے تو قانون تو یہاں بھی فالو نہیں کیا گیا۔

رکن الیکشن کمیشن نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ آپ بتائیں اب ہم کیا کریں۔

شعیب شاہین نے کہا کہ 8 جولائی کو ان کو سات روز میں جواب جمع کرانے کا کہا گیا، آج تک انک ی طرف سے کوئی جواب جمع نہیں کرایا گیا، جواب جمع کرانا تھا ان کو لیکن مئی گزر گیا، جون گزر گیا اور جولائی بھی گزر گیا، ہائی کورٹ کے آرڈر پر اب تک عملدرآمد نہیں کیا گیا، کون سماعت سے بچنا جارہا ہے ہم نہیں یہ ہیں، ٹربیونل کو فیصلہ کرنے دیں یہ الیکشن کمیشن کی جانب کیوں بھاگتے ہیں، یہ ایسا پنڈورا باکس ہوگا جو کبھی ختم نہیں ہوگا، جب جو چاہے گا آپ کے پاس آجائے گا کہ ٹربیونل پر اعتماد ہی نہیں۔

رکن بلوچستان نے کہا کہ یہ سب ایسا کیوں کریں گے؟

اس پر شعیب شاہین نے جواب دیا کہ یہ سماعت میں توسیع اور فیور چاہتے ہیں، ٹربیونل نے فارمز مانگے اور بیان حلفی مانگے، ٹربیونل کی جانب سے 7 دن میں جواب مانگا گیا مگر ان کی جانب سے جواب نہیں دیا گیا، اگر فریقین سات دن میں جواب نہیں دیں گے تو پھر ڈے بائی ڈے پراسیڈنگ ہوگی۔

شعیب شاہین نے مزید کہا کہ آپ کی ذمہ داری ہے مجھے انصاف دینا، اب یہ پسندیدہ جج کے پاس کیس لے جانا چاہتے ہیں۔

چیف الیکشن کمشنر نے شعیب شاہین سے استفسار کیا کہ پسندیدہ ججز بھی ہوتے ہیں؟ جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ حاضر سروس جج پسندیدہ یا نہ پسندیدہ نہیں ہوتے وہ سب کے لیے ججز ہوتے ہیں، ریٹائرڈ ججز حلف سے باہر ہوتے ہیں، حاضر سروس جج کو پسندیدہ اور ناپسندیدہ کہنا غلط ہے، فیصلے پر تنقید کرنا میرا اور سب کا حق ہے۔

وکیل ڈاکٹر طارق فضل نے جوابی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مجھے 7 دن نہیں چاہیے مجھے جواب جمع کرانے کے لیے 3 دن چاہیے صرف قانون پر عملدرآمد ضروری ہے۔

شعیب شاہین نے کہا کہ اگر تین مہینے ان کو ٹربیونل نے جواب جمع کرانے کے لیے دیے تو یہ کیسے کہہ سکتے ہیں انکے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔

وکیل ڈاکٹر طارق فضل نے کہا کہ یہ الیکشن ٹریبونل کی ڈیوٹی ہے جب تک الیکشن ایکٹ کے سیکشنز 142 سے 146 پر مکمل عملدرآمد نہیں ہوتا نوٹس جاری نہیں ہو سکتے، اگر پراسیڈنگ افسر الیکشن ایکٹ کو فالو نہیں کرے گا تو وہ مجھے پری جوڈیس کرے گا، اسلام آباد ہائی کورٹ یہ طے کر چکی ہے کہ الیکشن کمیشن ایک انتظامی اور ایڈوائزری باڈی ہے، لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق الیکشن ایکٹ میں 7 دن کا وقت ضروری نہیں ہے۔

بعد ازاں ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کی الیکشن ٹربیونل تبدیلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔