اداریہ: ’ایس سی او اجلاس کا انعقاد پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے‘
گزشتہ روز اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا سربراہی اجلاس اپنے اختتام کو پہنچا جہاں مختلف ممالک کے درمیان باہمی تعاون اور یوروایشیا میں روابط بڑھانے پر توجہ مرکوز کی گئی۔ چین اور روس کے وزرائے اعظم سمیت دیگر اراکین ممالک کی اعلیٰ قیادت اور مبصرین نے اس اجلاس میں شرکت کی۔
اس اجلاس نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان نے کاروبار کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں اور کثیرالجہتی تنظیموں میں مرکزی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ کے مطابق اہم موضوعات پر تبادلہ خیال کیا گیا جن میں معاشیات، ماحولیات اور ثقافتی معاملات شامل ہیں۔
سب سے اہم یہ ہے کہ اس اعلامیے میں ایس سی او ڈیولپمنٹ بینک کے قیام کے لیے کوششیں کرنے اور ’باہمی ادائیگیوں کے لیے ملکی کرنسیز‘ کے استعمال کو بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔
اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا کہ کسی ایک ملک کی جانب سے دوسرے پر یک طرفہ پابندیوں کا اطلاق بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔ یہ مغربی ممالک پر ڈھکے چھپے الفاظ میں تنقید تھی جو اپنے جغرافیائی سیاسی حریفوں روس اور ایران (دونوں ایس سی او کے رکن ہیں) کے خلاف پابندیوں اور ڈالرز کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مشترکہ اعلامیے میں ’روایتی اقدار اور ثقافتی اور تہذیبی تنوع‘ کے تحفظ پر بھی زور دیا گیا ہے۔
اپنے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف نے ’وجودی بحران‘ کے طور پر موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کو اجاگر کیا جبکہ افغانستان میں استحکام کی ضرورت پر بھی بات چیت کی۔ اگرچہ وہ ایس سی او کا رکن ہے لیکن 2021ء میں طالبان حکومت آنے کے بعد سے افغانستان نے ایس سی او کے کسی بھی اجلاس میں شرکت نہیں کی ہے۔ شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ ’غزہ میں جاری نسل کشی‘ کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
اس نوعیت کے اجلاس کا انعقاد کسی بھی ملک کے لیے عام بات ہے لیکن گزشتہ چند سالوں سے پاکستان کی سلامتی کے مسائل، مالی بحران اور سیاسی عدم استحکام کے باعث ہمارے لیے اس اجلاس کا انعقاد ایک چیلنج تھا، ایسے میں اتنی بڑی تعداد میں عالمی رہنماؤں کی سیکیورٹی کو یقینی بنانا، پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ ایس سی او کے اراکین نے پاکستان کی کاوشوں کا اعتراف کیا اور مشترکہ اعلامیہ میں بیان جاری کیا کہ سربراہی اجلاس کا انعقاد ایک ’تعمیری اور دوستانہ ماحول‘ میں ہوا۔
ہم آج جس نکتے پر موجود ہیں، اس تناظر میں ایس سی او کے اہداف بالخصوص مشترکہ بینک، کرنسی کے تبادلے، ہموار علاقائی روابط وغیرہ کو حقیقت میں بدلنے میں بہت زیادہ وقت اور محنت درکار ہوگی۔
تمام 10 اراکین ممالک کے اپنے مخصوص حکومتی نظام ہیں جس میں رہتے ہوئے ان کے بیوروکریٹس کام کرتے ہیں، ایسے میں انہیں ایک مشترکہ ہدف پر ایک ساتھ کام کرنے کے لیے آمادہ کرنا بھی ایک بہت مشکل ٹاسک ہے۔ لیکن مقاصد کا حصول شاید مشکل ہے لیکن یہ ناممکن نہیں۔
پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ وہ یوروایشیائی ممالک کے ساتھ اپنے علاقائی روابط کو وسعت دے۔ کوئی ملک خطے میں تنہا نہیں رہ سکتا۔ ایک ایسا دور کہ جب دنیا میں تقسیم میں اضافہ ہورہا ہے اور براعظموں میں متعدد تنازعات سر اٹھا رہے ہیں، ایسے میں شنگھائی تعاون تنظیم ممالک کو موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو ایک طرف کرتے ہوئے ایک ساتھ مل کر عوام کے مفادات کی خاطر مشترکہ اہداف کے لیے کام کریں۔
اسے ’بلاک سیاست‘ کی جانب واپسی سمجھتے ہوئے تنقید کرنے کے بجائے اس اقدام کو مثبت نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔